• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

قائد اعظم کی زندگی کے گمشدہ اوراق

شائع December 25, 2014 اپ ڈیٹ September 11, 2020

قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے کچھ پہلو ایسے ہیں جو آج تک کسی بھی عام پاکستانی کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں کچھ ایسے حقائق منظر عام پر آتے ہیں جو پاکستان کی نوکر شاہی سے ہضم نہیں ہوتے، حتیٰ کہ قائد اعظم محمّد علی جناح کے بارے میں ایسی معلومات جو ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے لکھی ہیں وہ بھی ریکارڈ سے غا ئب کردی گئیں۔

پاک و ہند کی تاریخ نویسی ہمیشہ سے مستند ہونے کے بجائے متنازع رہی ہے۔ عموماً تاریخ نویسی کا عمل راجوں مہاراجوں اور بادشاہوں کے پیشہ ور مورخین ان کے دور میں کرتے تھے۔ اس طرح لکھی جانے والی تاریخیں ہمیشہ مدح سرائی سے بھر پور ہوتی تھیں، یہ تاریخیں عوامی تاریخیں نہیں ہوتی تھیں، بلکہ ان میں فقط حکمرانوں کی فتوحات، سخاوت اور نام نہاد کارناموں کا ذکر ہوتا تھا۔

دور قدیم میں اس طرح کی تاریخ نویسی کی وجہ بالکل واضح تھی کہ حکمران یہ سمجھتے تھے کہ ان کے تمام 'کارنامے' عقل و فہم کا عالیشان نمونہ ہیں لیکن یہ سلسلہ صرف دور قدیم تک محدود نہیں رہا بلکہ دور جدید میں بھی حکمران ایسی تاریخیں اور سوانح عمریاں لکھواتے ہیں جس میں صرف ان کے کارناموں کا ہی ذکر ہوتا ہے۔

سابق فوجی آمر ایوب خان کے دور میں ایک ادیب نے ایک ناول لکھا اور چھپوانے کے لیے پبلشر کے پاس لے گیا لیکن اسے سخت مایوسی کا شکار ہونا پڑا جب تمام پبلشرز نے انہیں بتایا کہ ان کا ادارہ صدر ایوب کی کتاب ’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی، فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ چھاپ رہے ہیں، اور ناول چھاپنے کے لیے ان کے پاس بالکل وقت نہیں ہے۔ بڑی کوششوں کے بعد انہوں نے ایک چھاپے خانے کے مالک کو کتاب چھاپنے کے لیے تیار کرلیا لیکن پریس کے مالک نے شرط یہ رکھی کہ کاغذ کا بندوبست مصنف خود کریں۔

اب موصوف کاغذ کی تلاش میں نکلے تو کاغذ فروشوں کا جواب بھی یہی تھا کہ کاغذ صدر ایوب کی کتاب کے لیے دستیاب ہے، اس کے علاوہ کسی اور کتاب کے لیے کاغذ ناپید ہے۔ بڑی مشکل سے انہوں نے کاغذ کا بندوبست بھی کر لیا اور یوں کتاب چھپ گئی۔ چھپنے کے بعد انہوں نے جب کتب فروشوں سے کتاب کی فروخت کے لیے رابطہ کیا تو ان کا جواب بھی یہی تھا کہ ان کی دکان اس وقت صرف صدر ایوب کی کتاب سے سجی ہوئی ہے اور وہی فروخت ہو رہی ہے، کسی اور کتاب کی فروخت سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

موصوف نے مایوس ہو کر تمام کتابیں اپنے چھوٹے سے گھر میں رکھ دیں۔ ان کی بیگم نے کچھ عرصے تک تو کتابوں کے انبار کو برداشت کیا لیکن کچھ عرصے بعد روز مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ ایک تو گھر پہلے ہی چھوٹا سا ہے اور اس میں بھی آدھی جگہ کتابوں نے گھیر رکھی ہے۔

روز روز کے جھنجھٹ سے تنگ آ کر آخر حضرت کتابیں لے کر پرانی کتابوں کے بازار ریگل چوک پہنچے۔ یہ ان کے لیے آخری صدمہ تھا جب پرانی کتابیں فروخت کرنے والوں نے بھی ٹکا سا جواب دیا کہ اس وقت وہ صرف صدر ایوب کی کتاب ردی میں بیچ رہے ہیں، کسی اور کتاب کی گنجائش نہیں ہے۔

اس طرح کی کتابوں کا یہی حشر ہوتا ہے۔ ہاں تو ہم ذکر کر رہے تھے محمد علی جناح کی موت و حیات کے حوالے سے ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے ایک کتاب ’مائی برادر‘ یعنی 'میرا بھائی' لکھی، لیکن اشاعت سے قبل اس کے چند صفحے غائب ہو گئے۔ یہ کارنامہ قائد اعظم اکادمی کے روح رواں جناب شریف المجاہد نے انجام دیا تھا۔

فاطمہ جناح نے ایک کتاب ’مائی برادر‘ یعنی 'میرا بھائی' لکھی، لیکن اشاعت سے قبل اس کے چند صفحے غائب ہو گئے
فاطمہ جناح نے ایک کتاب ’مائی برادر‘ یعنی 'میرا بھائی' لکھی، لیکن اشاعت سے قبل اس کے چند صفحے غائب ہو گئے

ہم نے جب شریف صاحب سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ چوں کہ یہ صفحات نظریہ پاکستان کے خلاف تھے اس لیے ہم نے کتاب سے حذف کر دیے اور ان کو اپنے اس عمل پر نہ تب کوئی افسوس تھا، اور نا ہی آج ہے!

جب ہم نے انہیں بتایا کہ یہ صفحات تو قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ’شہاب نامہ‘ مطبوعہ 1988ء میں چھاپ دیے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ مواد حذف کروانے میں قدرت اللہ شہاب نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

آئیے اب ان صفحات پر نظر ڈالتے ہیں؛

پہلا واقعہ جولائی 1948ء کا ہے، جب قائد اعظم علالت کی وجہ سے علاج اور آرام کے لیے زیارت میں تشریف رکھتے تھے۔ محترمہ مس فاطمہ جناح نے لکھا ہے کہ جولائی کے آخر میں ایک روز وزیراعظم نواب لیاقت علی خان اور سیکریٹری جنرل مسٹر محمد علی اچانک زیارت پہنچ گئے۔

ان کے آنے کی پہلے سے کوئی اطلاع نہ تھی۔ وزیراعظم نے ڈاکٹر الہٰی بخش سے پوچھا کہ قائد اعظم کی صحت کے متعلق ان کی تشخیص کیا ہے؟ ڈاکٹر نے کہا کہ انہیں مس فاطمہ جناح نے یہاں بلایا ہے، اس لیے وہ اپنے مریض کے متعلق کوئی بات صرف انہی کو بتا سکتے ہیں۔

نواب صاحب نے زور دیا کہ ’وزیر اعظم کی حیثیت سے میں قائد اعظم کی صحت کے متعلق متفکر ہوں‘۔

ڈاکٹر نے ادب سے جواب دیا۔ ’جی ہاں، بے شک۔ لیکن میں اپنے مریض کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں بتا سکتا‘۔

جب مس فاطمہ جناح نے قائد اعظم کو وزیراعظم کی آمد کی اطلاع دی، تو وہ مسکرائے اور فرمایا؛

’تم جانتی ہو وہ کیوں آئے ہیں؟ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میری بیماری کتنی شدید ہے اور میں کتنا عرصہ زندہ رہ سکتا ہوں۔ تم نیچے جاؤ اور پرائم منسٹر سے کہہ دو کہ میں انہیں ابھی ملوں گا۔‘

مس فاطمہ جناح نے کہا ’اب کافی دیر ہو گئی ہے۔ کل صبح ان سے مل لیں۔‘

’نہیں‘ قائد اعظم نے فرمایا۔ ’انہیں ابھی آنے دو، اور بچشم خود دیکھ لینے دو۔‘

وزیر اعظم آدھے گھنٹے کے قریب قائد اعظم کے پاس رہے۔ اس کے بعد جب مس فاطمہ اندر گئیں، تو قائد اعظم بے حد تھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے کچھ جوس مانگا اور پھر چوہدری محمد علی کو اپنے پاس بلایا۔ سیکریٹری جنرل پندرہ منٹ تک قائد اعظم کے ساتھ رہے۔ اس کے بعد مس فاطمہ جناح دوبارہ قائد اعظم کے کمرے میں گئیں اور پوچھا کہ کیا وہ جوس یا کافی پینا پسند کریں گے؟

قائد اعظم نے جواب نہ دیا، کیونکہ وہ کسی سوچ میں محو تھے۔ اب ڈنر کا وقت آگیا تھا۔

قائد اعظم نے مس فاطمہ جناح سے فرمایا، ’بہتر ہے کہ تم نیچے چلی جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ۔‘

’نہیں‘ مس جناح نے اصرار کیا۔ ’میں آپ کے پاس ہی بیٹھوں گی اور یہیں پر کھانا کھا لوں گی‘۔

’نہیں‘، قائد اعظم نے کہا، ’یہ مناسب نہیں۔ وہ یہاں پر ہمارے مہمان ہیں۔ جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ۔‘

مس فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ کھانے کی میز پر انہوں نے وزیراعظم کو بڑے خوشگوار موڈ میں پایا۔ وہ پرمذاق باتیں کرتے رہے، جب کہ مس فاطمہ کا اپنا دل اپنے بھائی کے لیے خوف سے کانپ رہا تھا، جو اوپر کی منزل میں بستر علالت پر اکیلے پڑے تھے۔ کھانے کے دوران چوہدری محمد علی چپ چاپ کسی سوچ میں گم رہے۔

کھانا ختم ہونے سے پہلے ہی مس فاطمہ جناح اوپر چلی گئیں۔ انہوں نے بڑے ضبط سے اپنے آنسوؤں کو روک رکھا تھا۔ قائد اعظم انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا، ’فطی، تمہیں ہمت سے کام لینا چاہیے۔‘

اس واقعے کے دو ڈھائی ہفتے بعد چودہ اگست کو پاکستان کی آزادی کی پہلی سالگرہ آئی۔ اپنی کمزوری صحت کے باوجود یوم پاکستان پر قائد اعظم نے قوم کے نام بڑا ولولہ انگیز پیغام جاری کیا۔ مس جناح نے اپنے مسودے میں لکھا ہے کہ یوم پاکستان کے چند روز بعد وزیر خزانہ مسٹر غلام محمد قائد اعظم سے ملنے کوئٹہ آئے۔ لنچ کے وقت جب مس فاطمہ جناح ان کے ساتھ اکیلی بیٹھی تھیں تو مسٹر غلام محمد نے کہا، ’مس جناح میں ایک بات آپ کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔ یوم پاکستان پر قائد اعظم نے قوم کے نام جو پیغام دیا تھا، اسے خاطر خواہ اہمیت اور تشہیر نہیں دی گئی۔ اس کے برعکس وزیراعظم کے پیغام کے پوسٹر چھاپ کر انہیں نہ صرف شہر شہر دیواروں پر چسپاں کیا گیا ہے، بلکہ ہوائی جہازوں کے ذریعے اسے بڑے بڑے شہروں پر پھینکا بھی گیا ہے۔‘

مس جناح نے یہ بات خاموشی سے سن لی کیونکہ اس وقت انہیں اپنے بھائی کی صحت کی فکر تھی، پبلسٹی کی نہیں۔

یہ تھی ان گمشدہ اوراق کی کہانی جو محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب ’میرا بھائی‘ سے حذف کر دیں گئی تھیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی بے شمار وارداتیں ہوئی ہیں اور ہما ری کوشش ہے کہ ان تمام واقعات کو اصلی شکل میں آپ کی خد مت میں پیش کیا جائے، اگر آپ کے پاس بھی اس قسم کی کوئی معلومات ہوں تو ہمیں ضرور آگاہ کیجیے گا۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (21) بند ہیں

Malik Dec 25, 2014 02:18pm
Nothing surprising , how he was sent a broken ambulance and then left alone for 2-3 hour on the Marri Pur Road in the rotten atmoshpere is also a part of our history
Anwar Khan Dec 25, 2014 02:28pm
Dear AKhtar Balouch shabib you again did it to discover the hidden truth of Pakistan's top leadership in its early days of creation. I felt the article could have been far better with more real facts than what it has been published. I wish you may do it more hard-hitting to let the rulers know of forced written history of the country. At the end it is still great to learn
Roohan Ahmed Dec 25, 2014 03:10pm
بہت خوب اختر میاں. ایسے ہی بہت سے واقعات اور بہی ہیں جو توجہ کے منتظر ہیں. امید ہے آپ اپنا یہ کام جاری رکہیں گے.
saeed jan baloch Dec 25, 2014 04:11pm
dear baloch sahib pa ne tareekh ko dorust krne ki koshish ki hy likin ap ye bi jante hain k ye pakistan aur second yen k ap ne waqie ka zikar july 1947 likah hy jab k ye waqiai july 1948 ka ye shahid yr proof ki gulti ho sakti hy kindly is ko dorust ki jay thanx daer baloch
Jogindernath Mandal Dec 25, 2014 05:08pm
We celebrated our first independence day on August 15, 1948.
syed sibbat hasnain Dec 25, 2014 06:47pm
allah ap ko jaza e khair de agr aisi hi koi or pur dard baten hon to us ko apna faraz samaj kar qaom k sane pesh kren
wahab Dec 25, 2014 08:19pm
Such a informative blog baloch sahab noboday dare to write on these kind of topics but you gov should allow to add this history about Mohammad ali Jinnah so that way students will know about it and more information which is still undercover from people and students .
waleed Dec 25, 2014 08:19pm
azam or liyaqat ali kay darmiyan kia ikhtalafat thay aisi or bhi beshumar batain hongi aap nay to sach bata kr apni jaan azaad karli lekin kia koi or bhi aisa medan may aaye ga jo hamen sab sach bataye ga 25 december kay hwalay say apkay tofay ka bahot shukriya or is kay sath sath dawn.com walon ka bhi jo ap kay zariye haqaik ham tk pochatay hain DAWN DAWN hai bohat achcha block hai or hamay pehli bar maloom hoa k Quid e
Khalid Hussain Dec 25, 2014 10:32pm
بہت خوب اختر بلوچ صاحب اور بلخصوص ڈان میڈیا قائد کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا.ایسے ہی بہت سے واقعات اور بہی ہیں جو توجہ کے منتظر ہیں. امید ہے آپ اپنا یہ کام جاری رکہیں گے
شفیع Dec 25, 2014 11:21pm
السلام علیکم اگر قائد اعظم کو لیاقت علی خان پر اعتماد نہیں تھا تو انہیں وزیر اعظم کیوں بنا دیا؟ حالانکہ وزارت عظمی کیلئے لوگوں کی کمی نہیں تھی۔ براہ کرم جواب سے مشکور فرمائیں۔ شکریہ شفیع
Shamsher Alam Dec 26, 2014 04:47pm
@شفیع main aap se mutaffiq hon Shafi sb. k agr koi masla tha tu un ko PM. q bnaya r tarekh gawah hai k Liaquat Ali Khan was a sincere leader of Pakistan wo r unki wife dono ny bht qurbaniyan di thi hame mahz chand ogalt fehmiyoun ki wajah se iz khod rai nahi qaim kar leni chahiye
حسین عبداللہ Dec 26, 2014 07:20pm
مطلب یہ ہوا کہ قائد کے پاکستان کے ساتھ سیاستدانوں نے اسی وقت سے ہی کرسی کی خاطر سازشیں شروع کیں تھیں۔۔۔۔
jami Dec 26, 2014 08:14pm
talkh haqeqat
fahad Dec 29, 2014 01:43pm
Agreed even i belive our Quaid was not died due to TB he was murdered because of that ambulance thing and no body was there to support Quaid e azam at that time it is simply not possible. A preplaned game for our quaid ... Sad but true...
amjad qammar Dec 30, 2014 02:27pm
Akhat Baloch sahib : Jb b likhtey hein kamal kertey hein. Ap nein aik elamti mazmoon likha . na janey hamare mulk mein es tara k hazaron auraq gum shuda hein ... jn ki koi khaber nahe
Chishti Sep 11, 2018 12:13pm
Ghulam Muhammad was the person who manipulated Liaquat Ali Khans visit to USA, Liaquat Ali Khan came back very displeased from visit and refused to provide any troops to US for Korean war, he rather asked parliament to dispraise the aggressor of Korean war and approve 5000 tonnes of wheat instead. So GM must have lied to FJ
Habib nassar Sep 11, 2018 10:19pm
Dear, Great work to write the true history.but the pen of Miss: Fatima shows that she was aganist the so called two nations' theory of pakistan , therefore her name in our text booka ough to omitted as the prominenet rule in freedoom movement or infact decolonization.it also shows that the whole history regarding Miss and his bro is just a fabrication. Second, you should have provided the story of her assassination case which was filed and may be still in trial stage in session court Karachi. Thrid' the tone of the manuscrip is urban of uropean novels because there is no any double story building in the premises of ziarat residency as well in the area.
Safir Ahmad Siddiqui Sep 12, 2018 08:22am
Mr.Baluch,I visited Ziarat Residency in 1983 and went round to see .Quid's room,furniture and other articles.As I was looking down from the balcony,a very old Chiwkidar informed me that Quid-e Azam had breathed his last in the residency.But Hector Bolitho in his book "Jinnah the Creator of Pakistan" wrote that Quid was taken to Karachi while he was still alive.On the way to city from Mauripur, the Ambulance broke down and it took quite some time before replacement of the Ambulence was arranged.Also his Ambulences was not air conditioned hence the door of the Ambulences had to be opened for fresh air. Meanwhile Some flies sat on his face which inconvenienced him. It was removed with help of a hackerchief by the Nurse who accompanied the Quid.This was height of disrespect shown to the Father of the nation who had carved out a country so that we could live according to our aspiration.
Hani_Layyah Sep 12, 2018 08:01pm
I can't control my tears. .
Amna Dec 26, 2019 01:46am
If you dig deeper into history and read unbiased accounts, you will realise that Jinnah had turned down Liaqat's resignation as PM, this was the level of trust he had on Liaqat. Yes they had some misunderstandings that arose out of petty issues, but Quaid had dressed those and taken an oath from Liaqat that their relationship would always stand the test of time. Lastly, Liaqat was the most faithful of his partners, somebody who had left his properties in India without claiming compensation for them, all in favour of Pakistan. Even at the time of delivery, one of his socks was torn, such was his level of dedication to quiad and pakiatan. The author is requested to refrain from writings that are based on propaganda and tarnish the image of those who were the most loyal to Pakistan .
الیاس انصاری Dec 26, 2019 10:22am
بلوچ صاحب نے حذف شدہ صفحات تو پیش کر دیے لیکن کسی ثبوت کا ذکر نہیں کیا کہ یہ معلومات انہوں نے کہاں سے حاصل کیں اور کس نے ان کی تصدیق کی - اگر شہاب نامہ کا ذکر کرتے ہیں تو پھر تحریر میں کوئی "انکشاف" نہیں رہتا

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024