• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

جاوید ہاشمی ملتان جلسے کے لیے عمران خان کی دعوت کے منتظر

شائع September 30, 2014
۔ —. فائل فوٹو
۔ —. فائل فوٹو

ملتان: بزرگ سیاستدان جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے مدعو کیا تو وہ ملتان میں پارٹی کی جانب سے منعقدہ ریلی میں شرکت کرسکتے ہیں۔

پی ٹی آئی سے انحراف کرنے والے جاوید ہاشمی نے پیر کے روز یہاں ایک پریس کانفرنس سے بات کرتے ہوئے کہا ’’اگر عمران خان نے مجھے دعوت دی تو میں ملتان میں پارٹی کے عوامی جلسے میں شرکت کرسکتا ہوں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کے صدر کے بغیر اس کا عوامی جلسہ خود ایک مذاق ہے۔

جاوید ہاشمی نے کہا کہ وہ عمران خان سے شیخ رشید کو ملتان کے جلسے میں لانے کے لیے کہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’’ملتان کے عوام شیخ رشید کا انتظار کررہے ہیں۔وہ ایک ان پڑھ سیاستدان ہیں اور ان کی لکھی ہوئی تقریروں میں ایک واحد لفظ بھی تبدیل نہیں ہوتا ہے۔‘‘

جاوید ہاشمی نے کہا کہ ’گو مشرف گو‘ کا نعرہ اس آمر کو ملک کی تمام سیاسی قوتوں کی مشترکہ کوششوں کے باوجود دس سالوں تک گھر نہیں بھیج سکا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’اب گو نواز گو کا نعرہ لگانے سے بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔‘‘

بزرگ سیاستدان نے اقرار کیا کہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے اسلام آباد میں دھرنے عمران خان اور ان کی پارٹی کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کی ایک سازش ہے۔

انہوں نے کہا ’’قادری اور عمران خان دونوں کو چاہیے کہ اپنا دھرنا ختم کردیں اور واپس چلے جائیں۔‘‘

جاوید ہاشمی نے کہا کہ حکومت کو اس عدالتی کمیشن کے ججوں کی تعداد کو تین سے بڑھا کر پانچ کردینی چاہیے، جو عمران خان کے مطالبے پر تشکیل دیا جارہا ہے، تاکہ جو لوگ دھرنوں پر بیٹھے ہیں انہیں واپس جانے کا باعزت راستہ مل سکے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت بھی یہی کہتے تھے جبکہ پی ٹی آئی میں پچھلے سات ماہ کے دوران موجود تھے، کہ پارٹی کی جانب سے جو راستہ اختیار کیا جارہا ہے،اس سے پارٹی تباہی کی طرف بڑھے گی اور یہ عمران خان کی سیاست کے خاتمے کی ایک سازش ہے۔

بزرگ سیاستدان نے کہا کہ ’’شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین اپنے ذاتی مفاد کے لیے عمران خان کا ناجائز استعمال کررہے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ جہانگیر ترین نے ان کی پارٹی کی رکنیت کو چیلنج کیا ہے، وہ خود پی ٹی آئی کے غیر آئینی سیکریٹری جنرل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کنٹینر سے ان کی واپسی کے بعد جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے مابین لڑائی تیز ہو گئی ہے۔

بطور ایک سیاسی قوت کے پی ٹی آئی کی تعریف کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے کہا کہ مستقبل قریب میں اس طرح کی پارٹی کے اُبھرنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں، لیکن پارٹی کے اندر کے لوگوں نے اس کا مستقبل تاریک کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ این اے-149 کا ضمنی انتخاب جمہوریت، پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور فوج کے لیے مزید احترام پیدا کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی نے اس ضمنی انتخاب کا بائیکاٹ نہیں کیا تھا تو اس کو چاہیے کہ اپنے امیدوار کو پارٹی کا ٹکٹ اور انتخابی نشان جاری کرے۔

جاوید ہاشمی نے سوال کیا کہ ’’آخر کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے امیدوار کو ایک آزاد امیدوار کے طور پر کھڑا کیا ہے۔‘‘

اس موقع پر ایک آزاد امیدوار صدیق انصاری نے جاوید ہاشمی کے حق میں دستبرداری کا اعلان کیا۔

جہانگرین ترین:

۔ —. فائل فوٹو
۔ —. فائل فوٹو

پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ اگر جاوید ہاشمی نے پارٹی کی انضباطی کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر ان کو بھیجے گئے شوکاز نوٹس کا جواب نہیں دیا تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

پیر کو اپنی رہائشگاہ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’پارٹی کے آئین کے مطابق جاوید ہاشمی کا عہدہ اور ان کی رکنیت معطل کردی گئی ہے، اور اگر وہ انضباطی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور شوکاز نوٹس کا جواب نہیں دیا تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پارٹی جمہوری خطوط پر چل رہی ہے، اور جاوید ہاشمی کے بیانات افسوسناک ہیں۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ ’’انہوں (جاوید ہاشمی) نے عموماً عمران خان کی تعریف کی ہے اور اب وہ ہم پر تنقید کررہے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے دی گئی سول نافرمانی کی کال پر ٹیکس ادا کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔

جہانگیر ترین نے کہا ’’میں نے ٹیکس ادا کردیا ہے، لیکن میں نے بجلی کا بل ادا نہیں کیا۔‘‘

اسی دوران ایک آزاد امیدوار طارق نعیم اللہ نے اپنی رہائشگاہ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی میں اپنی شمولیت کا اعلان کیا۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا ’’ہم پہلے بھی مذاکرات کے لیے تیار تھے اور اب بھی اس کے لیے تیار ہیں۔ تاہم حکومت کے بیانات اور اس کی کارروائی میں تضاد موجود ہے۔‘‘

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024