مقابلہ کرنا ہے تو بندوق دی جائے، الطاف حسین
لندن/کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ صاف بتا دے کیا ہمیں پاکستان میں برابر کا شہری نہیں رکھنا چاہتے؟ اگر مقابلہ ہی کرنا ہے تو ایک بندوق ہمیں دی جائے اور ایک اپنے پاس رکھی جائے۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے متصل گراؤنڈ میں کارکنان سے ویڈیو لنک کے ذریعے جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کو 14 نکات پر مبنی خط لکھا تھا جس پر فوج، آئی ایس آئی، ایم آئی یا آئی ایس پی آرجواب دے۔
الطاف حسین کے خطاب کو نشر کرنے کے لیے ایم کیو ایم نے لاہور، سکھر، میر پورخاص سمیت دیگر شہروں میں بھی اجتماعات منعقد کیے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1992 کے آپریشن پر فوج کی وضاحت قبول نہیں ہو گی کیونکہ آج بھی ایم کیو ایم کے خلاف تعصب موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا گیا اس آپریشن کے حوالے سے اگر موجودہ اعلیٰ حکام کہیں گے کہ فوج متحدہ کے حوالے سے تعصب نہیں رکھتی تو یہ وضاحت قابل قبول نہیں ہو گی کیونکہ ابھی بھی صرف ہمارے کارکنان کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کے لیے نامزد فوجی افسر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ رینجرز کے نامزد ڈی جی میجر جنرل رضوان اختر نے الزام لگایا تھا کہ ہمارے کارکن جنوبی افریقہ سے آکر لوگوں کو قتل کرتے ہیں، میں نے کہا ائر پورٹ پر ہی ایسا کارکن کو گرفتار کر لو یا گولی مار دو۔
ان کا دعویٰ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں نے امریکی قونصل خانے میں جا کر کہا کہ عباس کمیلی کے بیٹے اور مفتی نعیم کے داماد کو ایم کیو ایم نے قتل کیا، یہ سراسر الزام اور جھوٹ ہے۔
انہوں نے کارکنان کے سامنے ایک بار پھر پارٹی کی قیادت چھوڑنے کی تجویز پیش کی مگر اس کو مسترد کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں 50دن سے دھرنے جاری ہیں، ان لوگوں نے پاکستان ٹیلی ویژن میں گھس کر توڑ پھوڑ کی مگر ان پر غداری کا الزام نہیں لگا اگر ایم کیو ایم ایسا کرتی تو کیا اس کے ساتھ بھی یہی رویہ رکھا جاتا، ہم تو ٹیلی ویژن تک تک کیا پہنچتے ہمیں اسلام آباد پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا۔
الطاف حسین نے کہا کہ ملک بھر میں ایم کیو ایم کے یونٹ بن گئے ہیں لیکن ہمیں ملک بھر میں پھیلنے سےروکا جا رہا ہے۔
انہوں نے کارکنان کو مزید بتایا کہ ڈکٹیٹرز نے فوج کی مدد سے مارشل لا تو لگا لیے مگر اس آرمی میں ایسے غیرت مند جنرل پیدا ہی نہیں ہوئے جو ملک سے وڈیرانہ نظام ختم کر دیتے۔
الطاف حسین نے کہا کہ سندھ توڑنے کی بات نہیں کرتے، نہ ہی صوبے کی تقسیم چاہتے ہیں، انتظامی یونٹس یا صوبے بننے سے ملک یا علاقے تقسیم نہیں ہوتے، تو پھر شمالی، جنوبی، مشرقی اور مغربی سندھ کیوں نہیں ہو سکتے۔
متحدہ کے سربراہ نے مزید کہا کہ 1970 میں ذوالفقار بھٹو نے 10 سال کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کیا جو کہ آج تک نافذہے، کوٹہ سسٹم نافذ کرتے ہوئے کہا گیا کہ 10سال بعد یہ نظام ختم کر دیا جائے گا مگر اب تک یہ ختم نہیں کیا گیا۔
سندھ کے 80 سال سے زائد عمر کے وزیر اعلی کے حوالے سے الطاف حسین نے کہا کہ قائم علی شاہ ہمارے بزرگ ہیں، ان کو تو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کیا کر رہے ہیں، آصف زرداری نے ان کو اسی لیے رکھا ہوا ہے تاکہ وہ ان سے فائلوں پر دستخط کرواتے رہتے ہیں، میں نے آصف زرداری کا 5 سال تک غیر مشروط ساتھ دیا مگر انہوں نے کراچی کی ترقی کے لیے میرے مطالبے نہیں مانے۔
قبل ازیں انہوں نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا دوہرا معیار کیا ہے؟ آج متحدہ کے جنرل ورکرز اجلاس کے دوران اس سے پردہ اُٹھاؤں گا۔
واضح رہے کہ الطاف حسین نے دو روز قبل پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے 14 سوال کیے تھے۔
تبصرے (4) بند ہیں