• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

پیپلزپارٹی نواز شریف کی حمایت پر نظرثانی کرسکتی ہے؟

شائع August 30, 2014
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف رائے ونڈ میں سابق صدر آصف علی زرداری کا خیر مقدم کررہے ہیں۔ —. فوٹو وہائٹ اسٹار
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف رائے ونڈ میں سابق صدر آصف علی زرداری کا خیر مقدم کررہے ہیں۔ —. فوٹو وہائٹ اسٹار

اسلام آباد: ملک میں جاری سیاسی بحران کے حوالے سے آرمی چیف کو دیے گئے پیغام پر مخالف جماعتوں کی جانب سے جو تنازعہ سامنے آیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے محتاط انداز میں آگے بڑھنے والی پاکستان پیپلزپارٹی اب حکومت کی حمایت کے مؤقف پر نظرثانی کرسکتی ہے۔

پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رکن کا کہنا تھا ’’اگر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کے فلور پر جھوٹا دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے فوج کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے نہیں کہا تھا تو پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ اس کے لیے وزیراعظم کی حمایت جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔‘‘

فوج کے ترجمان کی جانب سے کیے گئے ایک ٹوئیٹ کے چند گھنٹوں بعد پیپلزپارٹی کے رہنما نے یہ بات کہی، اس ٹوئیٹ میں کہا گیا تھا کہ آرمی چیف نے حکومت کی درخواست پر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے سربراہوں کے ساتھ ملاقات کی تھی۔

پیپلزپارٹی کے رکن نے کہا کہ اس وقت 1999ء میں کارگل کی جنگ کے بعد نواز شریف اور اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کے درمیان تصادم کی تاریخ دوہرائی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے رہنما اس پیش رفت کا گہری نظر سے جائزہ لے رہے ہیں، اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے چین سے ایک یا دو دن میں واپسی کے بعد ایک اجلاس کے دوران اس صورتحال کا جائزہ لیے جانے کا امکان ہے۔

جب ان کی توجہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کی تقریر کی جانب مبذول کروائی گئی جس میں انہوں نے وزیراعظم کی بھرپور حمایت کی تھی تو پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ یہ تقریر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی وضاحت کے بعد اور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کی ٹوئیٹ سے پہلے کی گئی تھی، جس میں زور دیا گیا تھا کہ سیاسی جماعتیں فوج کی ثالثی چاہتی تھیں۔

پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے محتاط نکتہ نظر اپناتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ضروری نہیں کہ تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال میں ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں ہے۔‘‘

لیکن انہوں نے کہا کہ بظاہر وہ دو مختلف بیانات تھے، ایک وزیراعظم کی جانب سے اسمبلی کے فلور سے دیا گیا ، اور دوسرا آئی ایس پی آر کی جانب سے۔ یہ درست نہیں ہوگا کہ ہم فوراً نتیجے کی جانب بڑھ جائیں اور اصرار کریں کہ کون سچ کہہ رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’بعض اوقات ایک بیان سچا ہوسکتا ہے، لیکن وہ مکمل حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا۔ہم مکمل سچائی کے سامنے آنے تک انتظار کریں گے۔‘‘

پیپلزپارٹی کے رہنما نے بتایا کہ آصف علی زرداری نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو ٹیلی فون کے ذریعے اس صورتحال پر تبادلۂ خیال کیاتھا۔

سینیٹ میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی رہنما رضا ربّانی نے کہا ’’گزشتہ رات ہونے والی پیش رفت کے بعد میرا سر شرم سے جھک گیا ہے۔‘‘

وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور پی اے ٹی کے سربراہ طاہر القادری کی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے ساتھ ملاقاتوں کا حوالہ دے رہے تھے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب تک جمہوری اور بائیں بازو کی قوتوں نے جیلوں میں تشدد اور کوڑے کھانے کے بعد جو تھوڑی بہت بنیاد حاصل کی تھی اب کھو گئی ہے۔

رضا ربّانی نے خبردار کیا کہ سیاست میں فوج کو گھسیٹنے کے ممکنہ نتیجے میں جمہوری ادارے تباہ ہوجائیں گے، اورموجودہ بحران کے لیے مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور پی اے ٹی ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے پر سینٹ کا اجلاس طلب کرنے کے لے حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مشاورت شروع کردی ہے۔

اسی دوران فرحت اللہ بابر نے وزیراعظم اور فوج کے ترجمان کے بیانات سے پیدا ہونے والے تنازعے پر بحث کے لیے سینیٹ سیکریٹیریٹ میں ایک تحریک التوا جمع کرادی۔

فرحت اللہ بابر نے اس تحریکِ التوا میں بیان کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے فوج سے مدد طلب کرنے کا یہ معاملہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ ایک دن پہلے معروف غیرملکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل میں ایک پریشان کن رپورٹ شایع ہوئی تھی۔

اس رپورٹ میں نامعلوم حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا تھا کہ سیاسی بحران میں نواز شریف کی کمزور پڑتی حیثیت کو دیکھتے ہوئے فوج نے سویلین قیادت سے ایک سودے بازی کی ہے، جس کے تحت خارجہ پالیسی اور فوج سے متعلق دیگر امور کا کنٹرول فوج کے قبضے میں چلا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی جانب سے متفقہ قراردادوں کے باوجود جس میں اس تعطل کے آئینی حل کے لیے حمایت کا عہد کیا گیا تھا اور یہ عزم کیا گیا تھا کہ مظاہرین کے کسی غیر آئینی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، فوج سے مدد طلب کی گئی۔

اس تحریک التوا میں کہا گیا ہے کہ ’’وزیراعظم نے فوج سے مدد کی درخواست کرکے پارلیمنٹ اور اس کی متفقہ قراردادوں کا مذاق اُڑایا ہے۔ یہ وزیراعظم کی جانب سے پارلیمنٹ پر مکمل طور پر عدم اعتماد کا مظاہرہ ہے، جس نے سیاسی تحفظات سے بالاتر ہوکر ان کی حمایت کی تھی۔‘‘

فرحت اللہ بابر نے موجودہ بحران اور 2011ء میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پر چھاپہ مار کارروائی کے مابین مشابہت پر توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ’’یہ قریب قریب اتنی ہی بڑی قومی شرمندگی ہے، جس قدر شرمندگی کا سامنہ قوم کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پر کارروائی کے بعد کرنا پڑا تھا۔‘‘

انہوں نے کہا ’’بے شک یہ قوم کے لیے اور اس سے کہیں زیادہ پارلیمنٹ کے لیے اجتماعی ذلت کا ایک لمحہ ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے دروازے پر پُراسرار طور پر چند ہزار مسلح مردوں اور عورتوں کا جمع کرکے فوج کے لیے مستقل مداخلت کا امکان کھول دیا گیا ہے۔‘‘

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024