فوج کے سیاسی کردار پر سیاستدانوں کی مذمّت
اسلام آباد: کل رات جس طرح فوج کے سربراہ سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں کے لیے عمران خان اور طاہر القادری اپنے اپنے کنٹینروں کو چھوڑ کر گئے تھے، تمام سیاسی رہنماؤں نے اس طرح سے فوج کے سیاسی معاملات میں ملؤث ہونے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
اور اس میں سب سے اہم ردّعمل خود پی ٹی آئی کے ایک رہنما کی جانب سے آیا ہے۔
مسلم لیگ کے سابق رہنما جاوید ہاشمی، جو فوج کے سیاست میں ملؤث ہونے کی مخالفت میں آواز اُٹھانے کے لیے مشہور ہیں، کا کہنا تھا ’’اس کے بعد ہم سر اُٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ تمام سیاستدانوں کے لیے شرمناک لمحہ ہے، جو وقت میسر ہونے کے باوجود اپنے طور پر اس بحران کو حل نہیں کرسکے۔‘‘
ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حقیقی جمہوریت اس ملک میں اسی وقت پنپنے لگے گی، جب سیاستدان اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل ہوں گے۔ فوج سے دونوں جماعتوں کے درمیان ضامن کا کردار ادا کرنے کی توقع کرسکتے ہیں۔
جب ان پر زور دیا گیا تو جاوید ہاشمی نے وضاحت کی کہ وہ اصولی مؤقف پر قائم رہنے کے رجحان کی وجہ سے اس پارٹی کے اندر ’’مسٹر ناراض‘‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
جاری بحران کو کم کرنے کے لیے جنرل راحیل شریف کی مداخلت کے بارے میں جب جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کو علم ہوا تو انہوں نے کہا ’’یہ ملک میں جمہوریت، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا خاتمہ ہے۔‘‘
یاد رہے کہ یہ وہی جسٹس طارق محمود ہیں، جو وکلاء کی تحریک کے دوران صفِ اوّل میں تھے، جنہیں ایک اور فوجی سربراہ کو سودمند ثابت کرنے کے لیے لایا گیا تھا، وہ فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کے جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے۔
انہوں نے کہا ’’میں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ فوجی مداخلت اس وقت بھی غلط تھی اور اب بھی یہ غلط ہے۔ لیکن ملک کی وہ تمام سیاسی جماعتیں جو اس بحران کو حل کرنے کی کوشش کررہی تھیں، انہیں غور کرنا چاہیٔے کہ دو فریقین کے جھگڑے میں فوجی سربراہ کے ثالثی کے کردار ادا کرنے کو تمام سیاسی جماعتوں کی ذلت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔‘‘
جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے مزید کہا کہ جنرل کیانی کی مداخلت جنرل راحیل شریف کی مداخلت کی طرح اس قدر واضح نہیں تھی۔
انہوں نے محتاط انداز میں کہا ’’مجھے حیرت ہے کہ فوجی دباؤ میں آنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کس طرح پارلیمنٹ کا سامنا کریں گے، جس نے شروع سے لے کر آخر تک ان کی حمایت کی ہے۔‘‘
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا ردّعمل کہیں زیادہ محتاط تھا۔ انہوں نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر فوج دونوں فریقین کے درمیان مصالحت کرواسکتی ہے اور یہ بحران ختم ہوتا ہے تو یہ درست اور اچھی بات ہے، لیکن فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں تھا۔
جے یو آئی-ایف کے ترجمان جان اچکزئی کا ردّعمل بھی اسی طرح کا تھا، انہوں نے کہا ’’یہ سیاستدانوں کی ناکامی ہے کہ وہ اس بحران کو حل نہیں کرسکے۔ لیکن جمہوریت کی روح اور پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے کسی معاہدے کا میں خیرمقدم کرتا ہوں۔‘‘
پیپلزپارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم سے سوال کریں گے کہ آخر آرمی چیف سے ثالثی کرنے کے لیے کیوں کہا گیا، جبکہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں ایوان میں موجود ہیں، اور انہوں نے اپنی خدمات کی پیشکش بھی کی تھی۔
پنجاب کے سابق گورنر اور پیپلزپارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ نے اس بحران میں فوج کے ملؤث ہونے کی ذمہ داری حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے کندھوں پر ڈالتے ہوئے کہا ’’پاکستان عوامی تحریک کے چودہ بے گناہ کارکنوں کی ہلاکتوں کے بعد شریف برادران ان کی ایف آئی آر درج کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے ساتھ معاملات کو نمٹانے میں حکومت کے تاخیری حربوں سے بھی صورتحال مزید پیچیدہ ہوئی تھی۔
ڈان نیوز ٹی وی سے بات کرتے ہوئے معروف قانون دان اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم عاصمہ جہانگیر نے طاہر القادری اور عمران خان دونوں ہی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں نے جس طرح پندرہ دن ضایع کیے تھے، اس کی لازماً مذمت کی جانی چاہیٔے۔‘‘
انہوں نے کہا تقریباً تمام سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے ان سے التجا کی تھی، لیکن انہوں نے کسی کے مشورے پر کان نہیں دھرا، ’’اب ایک ہی فون کال پر وہ آرمی ہاؤس کی جانب تیزی سے دوڑ گئے۔‘‘
فوج کے سیاسی معاملات میں صریحاً ملؤث ہونے پر عاصمہ جہانگیر نے تلخ لہجے میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پراکسی جنگ کا استعمال کرتے ہوئے نظام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کے بجائے وہ براہِ راست ہی فوجی حکومت کیوں مسلط نہیں کردیتے۔
اے این پی کے حاجی عدیل نے کہا کہ فوج کا سیاسی ضامن بننا غلط ہے، سپریم ضامن پارلیمنٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ تمام سیاستدانوں کی اہم ناکامی ہے۔‘‘
تبصرے (1) بند ہیں