• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

دھرنوں کی کوریج کرنے والے میڈیا پرسنز تھکن کا شکار

شائع August 27, 2014

اسلام آباد: نوشین یوسف پچھلے تین دنوں سے بخار اور گلے کے انفیکشن میں مبتلا ہیں۔

جیو نیوز کے لیے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 34 برس عمر کی نوشین، شاہراہِ دستور پر جاری دھرنوں کی تقریباً بارہ گھنٹے روزانہ کی کوریج کررہی ہیں۔

نوشین نے بتایا ’’میں ایک پروفیشنل صحافی ہوں، اور ہر طرح کے حالات میں ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے تیار رہتی ہوں، جیساکہ یہ میری ملازمت کا تقاضہ بھی ہے۔ لیکن یہ میرا پہلا تجربہ ہے کہ میں اس طرح کی حفظانِ صحت کے حوالے سے ناقص صورتحال میں کام کررہی ہوں۔‘‘

انہوں نے کہا روز بروز کچرے کی بدبو کی وجہ سے مظاہرین اور میڈیا کے نمائندوں کی پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں، مزید یہ کہ ہزاروں افراد کھلے آسمان تلے دن رات گزار رہے ہیں اور اسی جگہ کو بطور بیت الخلاء کے بھی استعمال کررہے ہیں۔

نوشین نے بتایا ’’ڈاکٹر نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں دھرنے کے مقام سے دور رہوں اور مناسب آرام کروں، جو کہ میری صحت کے لیے ضروری ہے۔ لیکن میں گھر پر قیام نہیں کرسکتی، اس لیے کہ موجودہ حالات میں میرے آفس کو میری خدمات کی ضرورت ہے۔‘‘

مختلف خبررساں اداروں کے رپورٹرز، فوٹوگرافرز، کیمرہ پرسنز اور پروڈیوسرز بھی نوشین کی طرح پچھلے دس دنوں سے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں میں اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں۔

میڈیا کے مختلف اداروں کے مطابق دھرنوں کے مقامات پر صفائی کی ناقص صورتحال کی وجہ سے ان کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا نہایت مشکل ہوتا جارہا ہے۔

ستائیس برس کے بلال خان بطور کیمرہ مین ایشین ٹیلی ویزن پریس نیٹ ورک (اے ٹی پی این) کے لیے کوریج کررہے ہیں۔

بلال نے بتایا ’’میں بخار اور سینے کے انفیکشن کی وجہ سے اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے قابل نہیں ہوں۔ میرے لیے یہ بھی مشکل ہے کہ میں جاری صورتحال کے دوران اپنے آفس سے چھٹی لے سکوں۔‘‘

وہ چوبیس گھنٹے الرٹ رہتے ہیں، اور انہیں تقریباً چودہ گھنٹے روزآنہ دونوں دھرنے کے مقامات کام کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا ’’میری خواہش ہے کہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوجائیں، اس لیے کہ میرے لیے صفائی کی ایسی ناقص صورتحال میں کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

چونتیس برس کے قمر زمان ایکسپریس ٹریبیون اخبار کے لیے دھرنے کی رپورٹنگ کررہے ہیں۔ وہ بھی گلے کے انفیکشن میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے کہا ’’اگرچہ میں صرف پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے سربراہوں کی تقاریر کی کوریج کے لیے دھرنے کے مقامات پر جاتا ہوں، تاہم روزانہ تین سے چار گھنٹے ہجوم میں گزارنا میرے لیے نہایت مشکل ہوتا جارہا ہے۔‘‘

چھتیس سالہ غلام الدین بطور پروڈیوسر سماء ٹی وی کے لیے دھرنوں کی کوریج کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا ’’اپنے نیوز چینل کے حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں کے لیے شرکاء کے انٹرویوز کے انتظامات کے لیے مجھے ہجوم کے ساتھ دس سے بارہ گھنٹے گزارنے پڑ رہے ہیں۔ صفائی کی اس قدر ناقص صورتحال میں کام کرنا بے حد خطرناک ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ بخار اور پیٹ کے امراض کے باعث ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، لیکن کام جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

انتالیس برس عمر کے خرّم بٹ بھی اردو زبان کے ایک اخبار جہانِ پاکستان کے لیے بطور فوٹوگرافر دھرنے کی کوریج کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا ’’میں دس دنوں سے دھرنوں کی کوریج کر رہا ہوں۔ یہاں لوگوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کی وجہ سے آکسیجن کی کمی ہوگئی ہے۔‘‘

خرم سرکے درد اور ہیضے میں مبتلا ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مقام پر پینے کے پانی کی بھی قلت ہے، جبکہ پی ٹی آئی کے دھرنے کے منتظمین نے میڈیا کے نمائندوں کے لیے پانی کی ایک بوتل تک کا بھی انتظام نہیں کیا ہے۔

اکتیس برس کے رضا بنگش ڈان نیوز ٹی وی کے لیے دھرنے کی کوریج کررہے ہیں۔ ’’مجھے تقریباً بارہ گھنٹے کام کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی بخار اور سینے کے انفیکشن میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صحافت ان کا جنون ہے، لیکن صفائی کی اس قدر ناقص صورتحال میں کام کرنا نہایت مشکل ہے۔

جب سی ڈی اے کے ترجمان عاصم کھچی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ سینیٹری ورکز جس قدر ممکن ہے اس علاقے کی صفائی کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

پولی کلینک ہسپتال کے ڈاکٹر شریف استوری نے ڈان کو بتایا کہ جب سے دھرنے شروع ہوئے ہیں، تیز بخار، فلو، سردرد، گلے اور سینے کے انفیکشن کی شکایات کے ساتھ صحافیوں سمیت سینکڑوں افراد ہسپتال سے علاج معالجے کے لیے رجوع کرچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا کے نمائندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ جب دھرنے کے شرکاء کے درمیان قیام کریں تو وہ ماسک کا لازماً استعمال کریں۔

ڈاکٹر شریف استوری نے کہا کہ صحافیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مناسب آرام بھی کریں، ورنہ ان کے لیے اپنے فرائض کی ادائیگی جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024