نون لیگ کی پی ٹی آئی کو مطمئن کرنے کی کوششیں
اسلام آباد: ذرائع نے ڈان کو بتایا ہے کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون انتخابی معاملات پر قانونی ماہرین کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے احتجاج اور غصے کو سرد کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کیا جارہا ہے۔
اس کے علاوہ سرکاری حکام نے ان کے ساتھ ممکنہ منظرنامے پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔
ایک سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اعلٰی حکام چار انتخابی حلقوں این اے-110 (سیالکوٹ)، این اے-122 (لاہور)، این اے-125 (لاہور) اور این اے-154 (لودھراں) میں ووٹرز کے انگوٹھے کے نشان کی تصدیق کے لیے پی ٹی آئی کے مطالبے کی اس امید کے ساتھ جانچ پڑتال کررہے ہیں کہ تمام متعلقہ فریقین کے لیے کوئی ایک قابلِ قبول حل تلاش کیا جاسکے۔
لیکن آئین میں یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ صرف الیکشن ٹریبیونل ہی کسی انتخابی حلقے میں ووٹرز کے انگوٹھے کے نشان کی تصدیق کا حکم جاری کرسکتا ہے۔
انتخابی تنازعات سے نمٹنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 22 میں بیان ہوا ہے کہ ایوان یا صوبائی اسمبلی کے الیکشن پر کوئی سوال نہیں کیا جائے گا، سوائے ایک انتخابی پٹیشن کے جو انتخابی ٹریبیوبل کے سامنے پیش کی جائے گی۔
مذکورہ اہلکار نے بتایا کہ اگر کوئی کسی الیکشن ٹریبیونل کے فیصلے سے متفق نہ ہو تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس صرف ایک راستہ دستیاب ہے، اور وہ یہ ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو ٹریبیونلز کو ہدایت کا اختیار دینے کے لیے عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976ء میں ایک ترمیم کرے، اس کے علاوہ فی الحال قانونی دائرہ کار میں کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔
بہت سے ماہرین خیال کرتے ہیں کہ اس خلاء کی موجودگی میں الیکشن کمیشن، انتخابی ٹریبیونلز کو ہدایات دینے سے معذور ہے، خاص طور پر ایسے معاملات میں جب کہ ٹریبیونلز سماعت کا غیرضروری التواءکرکے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
اہلکار نے بتایا کہ ایک آپشن یہ بھی ہے کہ ان چاروں متنازعہ انتخابی نشستوں پر دوبارہ انتخابات کروائے جائیں۔ لیکن اس خیال کی پرزور مخالفت کی جاتی ہے، اس لیے کہ یہ دونوں نشستیں وزیراعظم نواز شریف کے آبائی شہر لاہور کی ہیں۔
این اے-122 کی نشست قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کی ہے، جنہوں نے یہاں سے 93 ہزار تین سو نواسی ووٹ حاصل کرکے عمران خان کو شکست دی تھی۔ عمران خان کو یہاں سے 84 ہزار پانچ سو سترہ ووٹ ملے تھے۔
ریلوے کے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے این اے-125 کی نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔ یہ نشست انتخابات کے فوراً بعد ہی متنازعہ ہوگئی تھی، جب اس حلقے میں خواتین کے ایک پولنگ اسٹیشن پر وزیر موصوف کی ووٹروں کے ساتھ بحث کی وڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے پھیل گئی تھیں۔
خواجہ سعد رفیق نے اس نشست سے ایک لاکھ تیئیس ہزار چورانوے ووٹ حاصل کرکے پی ٹی آئی کے امیدوار حامد خان کے خلاف کامیابی حاصل کی تھی، جنہوں نے 83 ہزار ایک سو نوّے ووٹ حاصل کیے تھے۔
وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف این اے-110 کی نشست سے 92 ہزار آٹھ سو تین ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے تھے، جبکہ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے عثمان ڈار 71 ہزار پانچ سو پچیس ووٹ حاصل کرپائے تھے۔ اس نشست پر خواجہ آصف کی 2002ء اور 2008ء کے بعد یہ تیسری کامیابی تھی۔
مسلم لیگ نون کے صادق بلوچ نے این اے-154 میں پی ٹی آئی کے جہانگیر خان ترین کو شکست دی تھی۔ انہوں نے جہانگیر خانکے 75 ہزار نو سو پچپن ووٹوں کے مقابلے میں 86 ہزار ایک سو ستتر ووٹ حاصل کیے تھے۔
مذکورہ اہلکار نے کہا کہ حکومت پی ٹی آئی کے مطالبات کو اصولی بنیادوں پر تسلیم کرنے کے لیے تیار تھی۔ وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کے ایوان میں کہا تھا کہ ان کی پارٹی چالیس انتخابی حلقوں میں ووٹرز کے انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کے لیے تیار ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ آئین کے ذریعے پابند ہیں اور اس طرح کا براہ راست کوئی حکم جاری کرنے کا قانونی اختیار نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی یقین دہانی کرائے تو چار انتخابی حلقوں میں انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کے لیے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی پٹیشن کی مخالفت نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ چیزیں زیادہ آسانی کے ساتھ تبدیل کی جاسکتی ہیں۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک اس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، لیکن یہ چند آپشن حکومت کے سامنے موجود ہیں، جن میں سے حکومت کسی ایک کا انتخاب کرسکتی ہے۔