آئی ڈی پیز کے لیے انتہاء پسند تنظیموں کے امدادی کیمپس
سورج اپنی جھلسادینے والی شدت کے ساتھ سر پر ہے، قطار کو منظم رکھنے کے لیے دونوں اطراف خاردار تار بچھائے گئے ہیں، اور پولیس اہلکار لاٹھیوں اور بندوقوں کے ساتھ گشت کررہے ہیں۔
ایسے میں رضوان اللہ پچھلے دس گھنٹوں سے اپنی باری کے منتظر ہیں۔
بنوں میں یہ اسپورٹس کمپلیکس جسے آج کل ریلیف کیمپ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ حکومت نے جس راشن پیکیج کا اعلان کیا تھا، رضوان یہاں وہی پیکیج وصول کرنے کے لیے آئے ہیں۔
اس وقت سہہ پہر کے تین بجے ہیں اور وہ راشن حاصل کرنے کے لیے اپنی باری کے قریب بھی نہیں پہنچے ہیں۔ یہ کیمپ شام پانچ بجے بند ہوجاتا ہے۔
رضوان نے بتایا ’’مجھے اپنے اہلِ خانہ میں آٹھ افراد کے کھانے کا انتظام کرنا ہے۔ میں اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ آیا ہوں اور اب گرمی کی شدت میں قطار میں اپنی باری کا انتظار کررہا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ آج میری باری آئے گی یا نہیں۔‘‘
شمالی وزیرستان کے ایک عام رہائشی رضوان اللہ ان لاکھوں مقامی افراد میں سے ایک ہیں، جنہیں فوجی کارروائی کی وجہ سے علاقے سے نکلنا پڑا تھا۔
اس قبائلی پٹی میں ان کا آبائی علاقہ افغان طالبان، تحریک طالبان پاکستان اور ان کے مقامی اور غیرملکی ساتھیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
راشن لینے والوں کی یہ قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے، ہلکے سبز رنگ کی اسپورٹس جیکٹ جس پر ایف آئی ایف (جو فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا مخفف ہے) کا لوگو نمایاں ہے، میں ملبوس ایک نوجوان رضاکار ان بے گھر افراد کو پانی پلانے کے لیے آتا ہے، جو دھوپ کی شدت کی وجہ سے پیاس سے بے حال ہورہے ہیں۔
بیک وقت درجنوں افراد اپنے ہاتھ اس رضاکار کی جانب بڑھاتے ہیں، رضوان اللہ کی طرح یہ لوگ پسینے میں شرابور اور پیاسے لبوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ایف آئی ایف کا رضاکار تیزی سے ایک کے بعد دوسرے آئی ڈی پیز کو پانی پلارہا ہے، اور جب اس کا جگ خالی ہوجاتا ہے تو وہ اسے بھرنے کے لیے امدادی کیمپ کی جانب لوٹ جاتا ہے، جو اس اسپورٹس کمپلیکس کے باہر لگایا گیا ہے۔
اس امدادی کیمپ پر ایک خاصے بڑے سائز کا ایک بینر لگا ہے، جس پر شمالی وزیرستان سے نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے ان افراد کے لیے یہ پیغام درج ہے:
’’اس مشکل وقت میں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جماعت الدعوۃ‘‘
جماعت الدعوۃ، جس نے 2008ء میں ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کے الزامات کے بعد اپنا نام فلاح انسانیت فاؤنڈیشن رکھ لیا تھا، حال ہی میں اس کو امریکا کی جانب سے دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد گروپس میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔
اس پر افغانستان میں ہندوستانی قونصلیٹ پر مئی کےدوران ایک حملے کا بھی الزام تھا۔ لیکن پاکستان میں یہ گروپ جسے پہلے لشکرِ طیبہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، سرکاری سرپرستی سے لطف اندوز ہورہا ہے۔
جماعت الدعوۃ کے اس کیمپ کے انتظامی سربراہ محمد سرفراز کہتے ہیں ’’پاکستان آرمی واقعی ہمارے ساتھ تعاون کررہی ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ ’’بے گھر ہونے والے افراد کے استقبال کے لیے سب سے پہلے ہم نے کیمپ لگایا تھا، اگرچہ یہ علاقہ ریڈ زون کہلاتا ہے۔‘‘
محمد فراز نے فخریہ طور پر کہا ’’یہ ان پناہ گزینوں کے قلب و ذہن کو جیتنے کا وقت ہے۔ جس میں حکومت ناکام رہی ہے۔ اور شمالی وزیرستان کے لوگ ہمارے شکر گزار ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد نے ہمارے لیے کام کرنے کا عہد کیا ہےاور وہ بھی زندگی بھر کے لیے۔‘‘
پورے بنوں میں اس تنظیم کے دو سو سے زیادہ رضاکار امداد تقسیم کررہے ہیں، اور پچیس ایمبولنسز اسٹینڈ بائے ہیں۔
محمد سرفراز بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایک لاکھ بارہ ہزار سے زیادہ کی تعداد میں فوڈ پیکٹس تقسیم کیے ہیں، اور دس ہزارسے زیادہ مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کی ہیں۔
اور محض جماعت الدعوۃ ہی نہیں ہے جو اس علاقے میں آزادانہ کام کررہی ہے۔
اس اسپورٹس کمپلیکس سے محض نصف کلومیٹر کے فاصلے پر چمکدار سرخ رنگ کا ایک بینر لگایا گیا ہے، اس پر مسعود اظہر کا نام تحریر اور انہیں امیر المجاہدین کا لقب دیا گیا ہے۔
اس امدادی کیمپ میں پانی اور طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہے۔ یہاں بھی لوگوں کی ایک طویل قطار دیکھنے کو ملی، جو ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔
نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے ایک فرد جس کا بچہ اسہال میں مبتلا تھا، نے بتایا کہ ’’ہسپتال میں مریضوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، لہٰذا ہم یہاں آئے ہیں۔‘‘
یہ شخص اس کیمپ کے فارماسسٹ سے دوائیاں لینے کے لیے انتظار کررہا تھا۔
پہلے تو اس کیمپ کے منتظمین ڈان کے نمائندے سے بات کرنے گریزاں تھے۔ ان میں سے ایک جنہوں نے اپنی شناخت مقصود کے نام سے کروائی تھی، کہنے لگے ’’ہم میڈیا سے بات نہیں کرسکتے، اس لیے کہ آپ شرعیت کے خلاف اسٹوریز شایع کرتے ہیں۔‘‘
ڈان کے نمائندے کے اصرار پر بالآخر انہوں نے زبان کھولی اور انہیں یہاں تک بتایا کہ ان کی تنظیم کشمیر اور افغانستان میں جہاد میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا ’’ہم اللہ کے سپاہی ہیں اور ہم یہاں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے آئے ہیں۔‘‘
ان کے پیچھے ایک پوسٹر لگا ہوا تھا، جس پر آئفل ٹاور کی تصویر کے ساتھ ’’یوروبیا‘‘ تحریر تھا۔ اس پوسٹر پر شام میں جاری جہاد میں حصہ لینے کی اپیل کی گئی تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی اس امدادی سرگرمیوں کے لیے فنڈز کے ذرائع کیا ہیں تو انہوں نے ڈان کو بتایا ’’ہم ملک بھر میں مساجد کے ذریعے بے گھر افراد کے لیے عطیات جمع کررہے ہیں۔‘‘
چند منٹ کے بعد کیمپ کے سینئر منتظم وہاں آئے اور ڈان کے نمائندے کو وہاں سے جانے کے لیے کہا۔
وہ وہاں سے نکل کر ایک قریبی اسکول میں چلے گئے، جس کو انسانی حقوق کی ایک تنظیم کی مدد سے نقل مکانی کرنے والے افراد کے ایک کیمپ میں تبدیل کردیا گیا تھا۔
ڈان کے نمائندے نے وہاں موجود ایک صاحب کو اپنے اس تجربے کے بارے میں بتایا، تو انہوں نے کہا کہ یہ تنظیم جس کے وہ سربراہ ہیں، اسے یہاں امدادی کیمپ قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
یہ نظام داور تھے، جن کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے، اور وہ قبائلی ترقیاتی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں، جو قبائلی پٹی میں کام کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا ’’مقامی حکام ہم سے کہتے ہیں کہ این او سی کے لیے درخواست دیں، جبکہ مذہبی اور انتہاءپسند تنظیمیں آزادانہ کام کررہی ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’’یہ انتہاء پسند خطرے سے دوچار آئی ڈی پیز کی آبادی میں سرائیت کرگئے ہیں، ان کی سوچ کو تبدیل کرکے انہیں اپنے مقاصد کے لیے بھرتی کر رہے ہیں۔‘‘
نظام داور نے کہا ’’اس کے علاوہ یہ عسکریت پسند تنظیمیں مفرور دہشت گردوں کو محفوظ راستہ فراہم کرسکتی ہیں، جو ان کے ساتھ گہرے روابط رکھتے ہیں۔ آخر حکومت ان کے بارے میں کیوں خاموش ہے؟‘‘
تبصرے (5) بند ہیں