عالمی پابندیوں کا خطرہ۔ سینٹ کمیٹی نے عجلت میں بل منظور کرلیا
اسلام آباد: کل بروز جمعہ سینیٹ کی ایک کمیٹی کو جب مطلع کیا گیا کہ اگر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی امداد کو روکنے کے لیے قانونی نقائص کو دور نہ کیا گیا تو ملک کو پابندیوں کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، چنانچہ اس نے ایک بل کسی بحث کے بغیر ہی منظوری دے دی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا گیا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس کے دوران اس معاملے کی پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔یہ بین الاقوامی ادارہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی کا راستہ روکنےکے ضمن میں کی جانے والی عالمی کوششوں کی نگرانی کرتا ہے۔
ایک پریزنٹیشن کے دوران وزارتِ خزانہ کے قانونی مشیر منیب ضیاء نے کہا کہ اس یہ اجلاس فرانس میں بائیس جون سے چھبیس جون کو منعقد ہوگا، جس کے دوران ایف اے ٹی ایف پاکستان کے ساتھ سرمائے کے لین دین پر پابندی عائد کرسکتا ہے۔
سینیٹ کی کمیٹی نے اس انسدادِ دہشت گردی کے دوسرے ترمیمی بل 2014ء کا جائزہ لینا تھا، جسے قومی اسمبلی نے چھ فروری کو منظور دی تھی، سات مارچ کو سینیٹ کی جانب سے اسے کمیٹی کے پاس جانچ پڑتال کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔
منیب ضیاء نے اس معاملے کے تاریک پہلوؤں پر روشنی ڈالی تو کمیٹی نے متفقہ طور پر اس بل کو کسی ترمیم، تجویز اور بحث کے بغیر ہی منظور کرلیا۔
اس بل کا مقصد انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی خامیوں کو دور کرنا اور اس کی شقوں کو مضبوط بنانا ہے۔ اس بل کے ذریعے کالعدم تنظیموں اور بلیک لسٹ افراد کے ملکیتی اثاثوں کو منجمد اور ضبط کیا جاسکے گا۔
پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ابتداء میں 2008ء کے دوران بلیک لسٹ کیا گیا تھا، اور بعد میں 2010ء کے دوران بین الاقوامی سرمایہ کاری نظام کے لیے ایک خطرہ قرار دیا گیا تھا۔
عالمی بینک اور ایشیا پیسیفک گروپ کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کی کوششوں کے حوالے سے پاکستان کے قانونی فریم ورک کا جائزہ لیں۔
پاکستان نے اصلاحات کے ایکشن پلان پر بات چیت شروع کی اور متعلقہ قوانین میں موجود کمی کو دور کردیا، لیکن بعض خدشات سے نہیں نمٹا گیا۔
اس ایکٹ میں ترمیم کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، لیکن ہندوستان کی جانب سے ایک اعتراض کے بعد اس کو مسترد کردیا گیا اور ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ حکمت عملی کی کمی کو دور کرنے کے لیے قانون سازی کا عمل مکمل کرے۔
سینیٹ کی کمیٹی کے چیئرمین طلحہ محمود نے کہا کہ اس بل کا باریک بینی سے جائزہ لیے بغیر اس کی منظوری کا فیصلہ اس لیے کیا گیا تاکہ پاکستان کے نام کا بلیک لسٹ اخراج کو یقینی بنایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ بل بروقت پاس نہ ہوتا تو اس ملک اور اس کے لوگوں کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔ strong text