لوڈشیڈنگ میں کمی۔ وزیراعظم کی ہدایات پر عمدرآمد ممکن نہیں
اسلام آباد: جمعرات کے روز تقریباً چار ہزار پانچ سو میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت بہت سے ٹیکنیکل، مالیاتی اور ایندھن سے متعلق مسائل کی وجہ سے ناکارہ پڑی رہی۔
چنانچہ بجلی کی کل قلت چار ہزار آٹھ سو میگاواٹ تک جاپہنچی، جس کامطلب تقریباً دس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ نکلتا ہے۔
ایک حکومتی اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ وزیراعظم کی جانب سے جاری کی گئی ہدایت کہ ایک دن میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ چھ گھنٹوں سے کم کیا جائے، پر عملدرآمد ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بجلی کی طلب حکام کے حساب کتاب سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔
ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ نیشنل پاور کنٹرول سینٹر (این پی سی سی) کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بجلی دستیاب پیداواری صلاحیت لگ بھگ دس ہزار نو سو پندرہ میگاواٹ ہے، اس کے برخلاف بجلی کی طلب تقریباً پندرہ ہزار سات سو پچاس میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔
جبکہ تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بجلی کی طلب کی بنیاد پر کل ضرورت سترہ ہزار میگاواٹ سے زیادہ تک پہنچی ہوئی ہے۔
مذکورہ اہلکار کے مطابق قومی ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک میں کے-الیکٹرک کو نکال کر تقریباً چار ہزار آٹھ سو آٹھ میگاواٹ کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بجلی کے صارفین ایک دن میں اوسطاً دس گھنٹوں سے زیادہ بجلی حاصل نہیں کرپارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایات کے بعد جمعرات کو بجلی کے شعبے میں بیس ارب روپے کی رقم ادا کی گئی۔
اس طرح اب تک بجلی کے شعبے کو وفاقی بجٹ سے کی جانے والی ادائیگی 235 ارب روپے کی حد سے تجاوز کرگئی ہے، جس میں مارچ کے اواخر میں 195 ارب روپے کی جانے والی وہ ادائیگی بھی شامل ہے، جو سبسڈی کی مد میں کی گئی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تقریباً سولہ سو میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت محض معمولی مسائل اور گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے ناکارہ پڑی ہے ، اس لیے کہ مینوفیکچرنگ کے شعبے کو گیس کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔