آسام: قبائلی حملوں میں دیہاتی مسلمانوں کی ہلاکتیں
گوہاٹی: گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران آسام میں جاری پُرتشدد نسلی فسادات کے دوران مرنے والوں کی تعدادتیس پہنچ گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مرنے والے بنگالی مسلمان تھے، جنہیں مبینہ طور پر بوڈو قبائلیوں نے نشانہ بنایا تھا۔
خبررساں اداروں کے مطابق آج صبح نو مزید لاشیں ملی ہیں، جن میں سے چار لاشیں بچوں کی ہیں۔
كوكراجھاڈ اور ارد گرد کے علاقوں میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ ریاستی حکام نے سیکیورٹی فورسز کو فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیا ہے۔
فوج اور پولیس کے جوان مسلسل گشت کر رہے ہیں۔ فسادیوں نے کئی گھروں کو نذرِ آتش کر دیا۔ مخالفین آسام کے وزیراعلٰی ترون گوگوی کی استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اسی دوران ریاستی حکومت نے اعلٰی حکام کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔
آسام کی عسکریت پسند تنظیم نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ کے سگبجيت گروپ نے كوكراجھاڑ، چرانگ اور خانہ کے ضلعوں میں خواتین اور بچوں کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، اس واردات میں 13 افراد شدید زخمی ہیں۔
ہندوستانی خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق متاثرہ علاقوں میں فوج گشت کر رہی ہے اور مرکز سے نیم فوجی دستوں کی دس کمپنیاں بھی طلب کی گئی ہیں۔
کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے ان ہلاکتوں پر گہرے غم اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو مختلف فرقوں کو تقسیم کرنے والی اور شدت پسند طاقتوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
آسام پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے گزشتہ رات کوکراجھار اور خانہ اضلاع میں دو مقامات پر اندھا دھند فائرنگ کی۔
یہ دونوں علاقے بوڈولینڈ علاقائی کونسل میں شامل ہیں، جہاں دو سال پہلے بھی بوڈو قبائلیوں اور بنگالی مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے۔
بوڈو قبائلیوں کا الزام ہے کہ سرحد پار بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمان غیر قانونی طور پر اس علاقے میں آباد ہیں۔ یہ علاقہ بھوٹان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔
بنگلہ دیش سے نقل مکانی کرکے ہندوستان میں بسنے والے لوگوں کا مسئلہ اس انتخابات میں بنیادی موضوع بنا ہواہے اور وزیر اعظم کے عہدے کے لیے بی جے پی کے امیدوار نریندرا مودی نے کچھ دن پہلے مغربی بنگال میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 16 مئی کو انتخابات کے نتائج کا اعلان ہونے کے بعد غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیج دیا جائے گا۔
پولیس کا دعوی ہے کہ اس تشدد کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یاد رہے اس پارلیمانی حلقہ میں 24 اپریل کو ووٹ ڈالے گئے تھے۔