لوڈشیڈنگ: اپوزیشن حکومت کو مشکل میں ڈال سکتی ہے
اسلام آباد: اس بات کا امکان ہے کہ لوڈشیڈنگ کے معاملے پر پارلیمنٹ میں حکومت کو مشکلات سے دوچار کرسکتی ہے، جیسا کہ پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع کراے جانے کے کئی دنوں کے بعد جمعہ کے روز ملک بھر میں اور خصوصاً سندھ میں جاری بجلی کی غیرمعمولی بندش کے خلاف ایک تحریک التواء پیش کی تھی۔.
اس تحریک التوا پر پیپلزپارٹی کے سینیٹروں رضا ربّانی، فرحت اللہ بابر، سعید غنی اور مختار احمد دھمرا نے دستخط کیے تھے۔
اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے بدھ کے روز پانی و بجلی کے وزیرِ مملکت عابد شیر علی کے خلاف ایک تحریک استحقاق جمع کرائی تھی، جس میں ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے سندھ کے عوام اور سندھ اسمبلی کے اراکین کو بجلی چور قرار دے کر ان کی بے عزتی کی ہے۔
بعد میں پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے خورشید شاہ سے ملاقات کرکے بجلی کے نادہندگان کے خلاف جاری مہم اور عابد شیر علی کے بیان کے حوالے سے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
خورشید شاہ نے خواجہ آصف پر زور دیا کہ چند بجلی چوروں کو سزا دینے کے لیے ایک علاقے سے ٹرانسفارمر نہیں ہٹائے جائیں، اس لیے کہ اس طرح کی کارروائی سے وہ لوگ بھی بجلی سے محروم ہوجاتے ہیں جو باقاعدگی کے ساتھ بجلی کے بل ادا کررہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ سندھ نے واپڈا کے واجبات کیے تھے۔ انہوں نے قائدِ حزب اختلاف کو یقین دہانی کرائی کہ صوبے میں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ جلد حل کردیا جائے گا۔
لیکن جمعہ کے روز ہی خواجہ آصف نے ایک پریس کانفرنس میں تمام صوبوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے بقایاجات ادا کرنے میں ناکام رہے تو بجلی کی فراہمی منقطع کردی جائے گی۔
جب فرحت اللہ بابر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے جمہوریت کی خاطر اس حکومت کی حمایت کی تھی، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ پی پی اس کی عوام مخالف پالیسیوں کی مخالفت بھی نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا ’’ہم عوام کے مسائل کی قیمت پر حکومت کی حمایت نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نجکاری منصوبے اور متنازعہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کی مخالفت کررہے ہیں۔‘‘
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ’’سندھ کے عوام شدید گرمی میں بار بار بجلی کے تعطل کا شکار ہورہے ہیں، اور اس مسئلے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے ہمارے پاس جواز موجود ہے۔‘‘
گلگت بلتستان کی ترقی:
سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے نو اراکین پر مشتمل ایک وفد نے حال ہی میں گلگت اور ہنزہ کا دورہ کرنے کے بعد وہاں کے مسائل کے حوالے سے سات قراردادیں ایوان میں جمع کرائی تھیں، جن میں گلگت بلتستان میں کا ن کنی کی ترقی کے حوالے سے قانون کو بہتر بنانے کے لیے ترامیم کی تجاویز دی گئی ہیں۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ قراردادیں گلگت بلتستان کی خودمختاری اور سیلف گورننس آرڈر 2009ء میں ترامیم کے ساتھ ساتھ اور معدنی وسائل کی دریافت کے لیے کمیونٹی میں آگاہی کا پروگرام شروع کرنے، کان کنی کے لائسنس پر سے پابندی ہٹانے، اس علاقے میں پروازوں کی تعداد میں اضافے اور لیبر قوانین متعارف کرانے، اسکردو کارگل اور اسکردو لداخ کی سڑکوں کو کھولنے، پولیس میں اصلاحات اور گلگت میں آنے والے سیاحوں کو محدود مدت کے ویزے دے کر سیاحت کو فروغ دینے پر مبنی ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے افراسیاب خٹک کی سربراہی میں جانے والے اس وفد میں مسلم لیگ قاف کے سینیٹر مجاہد حسین سید، فاٹا کے ہدایت اللہ، پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر، سحر کامران، نسرین جلیل، ثریا امیر الدین، خالدہ محسن اور فرحت عباس شامل تھے۔
سینیٹ کی کمیٹی کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کو خودمختار بنانا چاہیٔے اور اس خطے کے عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالتی نظام کو لازماً مضبوط بنانا چاہیٔے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’’گلگت بلتستان میں اعلٰی عدالتوں کے اندر تقرریوں کے حالیہ نظام پر نظرثانی کرکے اس ادارے کو حقیقی معنوں میں آزاد اور مضبوط بنایا جائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سینیٹ کی کمیٹی کے اراکین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خطے کے بدلتے ہوئے حالات، پاکستان کی سلامتی، اقتصادی اور خارجہ پالیسی کے معاملات کو گلگت بلتستان سے پیچیدگی کے ساتھ مسلک کردیا گیا تھا، اور اسلام آباد کو گلگت بلتستان سے متلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیٔے۔