مشرف کو رعایت نہ دینے پر مسلم لیگ نون میں اتفاق
اسلام آباد: اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ نون کے اندر ایک بھاری اکثریت سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو متحدہ عرب امارات کے سفر کی اجازت دینے کی مخالفت کررہی ہے، جہاں وہ اپنی بیمار والدہ کی عیادت اور اپنے عارضۂ قلب کے علاج کے لیے جانا چاہتے ہیں۔
ایک پارٹی ذریعہ نے ڈان کو بتایا کہ مسلم لیگ نون کے اعلیٰ سطح کی قیادت کے حساس نوعیت کے اجلاس کے دوران اس معاملے پر گرماگرم بحث کی گئی، وزیراعظم کے دفتر میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں صرف چند شرکاء نے سابق فوجی سربراہ کے سفر پر سے پابندی ہٹانے کی حمایت کی، جن پر پیر کے روز خصوصی عدالت کی جانب سے سنگین غداری کی فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔
وزیراعظم کے دفتر کے میڈیا ونگ نے اس اجلاس کے بارے میں خاموشی اختیار کیے رکھی، جس کی صدارت وزیراعظم نواز شریف نے کی تھی۔ اس اجلاس میں وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیرِ دفاع خواجہ آصف، پٹرولیم کے وزیر شاہد خاقان عباسی، سرحدی علاقوں کے امور کے وزیرِ مملکت ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ، وزیرِ اطلاعات پرویز رشید، سردار مہتاب عباسی اور وزیراعظم کے خصوصی معاون عرفان صدیقی نے شرکت کی۔
ذرائع کے مطابق یہ اجلاس تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہا، جس میں مضبوط دلائل پیش کیے گئے۔ وزیراعظم اپنی پارٹی کے سینئر ساتھیوں کو صبر اور خاموشی کے ساتھ سنتے رہے۔انہوں نے ترغیب دی کہ اس معاملے پر شرکاء اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں۔
اگرچہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں سے نام خارج کرنے کے لیے مشرف کی درخواست کو منظور کرنے کے حق میں بات کرنے والے اقلیت میں تھے، لیکن انہوں نے یہ دلیل دی کہ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم لیگ نون نے اس آمر پر مقدمہ چلا کر اپنے طے شدہ ہدف کو حاصل کرلیا ہےاور ان پر باضابطہ فردِ جرم عائد ہونے کے بعد انہیں اپنی علیل والدہ کی عیادت کی اجازت دینے سے پارٹی کو اچھے لفظوں سے یاد کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نون کے ایک رہنما نے کہا ’’پہلے ہی عسکریت پسندی، بجلی کے بحران اور نازک معیشت کے جیسے سخت مسائل نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ مشرف کے مقدمے میں پھنسنے کے بجائے اپنی پوری توجہ ان مسائل کے حل پر مرکوز کی جائے۔‘‘
مذکورہ رہنما نے مزید کہا کہ خصوصی عدالت کی جانب سے یہ معاملہ حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دینے کے بعد ’’ہمیں چاہیٔے کہ مشرف کو انسانی بنیادوں پر ریلیف دے دیں اور اس کا کریڈٹ خود حاصل کریں۔‘‘
اپنے مختصر فیصلے میں خصوصی عدالت نے سابق فوجی حکمران سے کہا تھا کہ وہ سفری پابندیوں کے خاتمے کے لیے حکومت سے رابطہ کریں، اس لیے کہ یہ معاملہ اس کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا۔
حکومت نے پچھلے سال آٹھ اپریل کو سپریم کورٹ کے ایک حکم پر ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا تھا۔
تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے فیصلہ دیا کہ ملزم مشرف اندرون و بیرون ملک سفر کرنے میں آزاد ہیں۔
وزیراعظم کی صدارت میں مسلم لیگ کے رہنماؤں کے اس اہم اجلاس میں اکثریت جو مشرف پر سفری پابندیاں ہٹانے کے خلاف تھی، کا کہنا تھا کہ بارہ اکتوبر 1999ء کو سابق فوجی سربراہ نے بغاوت کرکے مسلم لیگ نون کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، پارٹی کو اسی لمحے کا انتظار تھا، اور جب وہ وقت آگیا ہے تو اس کو مضبوطی سے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنا چاہیٔے۔
مسلم لیگ نون کے ذرائع کے مطابق ایک وزیر نے کہا کہ ’’اگر ہم خالصتاً رحمدلی کی بنیادوں پر انہیں اپنی والدہ کے پاس جانے کے لیے بیرون ملک سفر کی اجازت دیتے ہیں، تو حزبِ اختلاف کی جماعتیں ہمارے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیں گی کہ ہم اپنی مؤقف پر قائم نہیں رہ سکے۔ کچھ حکومت پر یہ الزم بھی عائد کریں گے کہ یہ اجازت بیرونی دباؤ کی وجہ سے دی گئی ہے۔ سیاسی طور پر یہ پارٹی کے لیے خودکشی جیسا اقدام ہوگا، چنانچہ اس سے گریز کرنا چاہیٔے۔‘‘
وزیراعظم کے ایک معاون نے ڈان کو بتایا کہ ’’جہاں تک میرے ذاتی مشاہدے کا تعلق ہے تو یہ حکومت صرف عدالت کے حکم پر ہی ای سی ایل سے ان کا نام خارج کرے گی، اپنے طور پر ایسا نہیں کرے گی۔‘‘
اگر عدالت ان کے حق میں فیصلہ کرتی ہےحکومت اور مشرف دونوں کے لیے ایک جیسی ہی صورتحال ہوجائے گی، جبکہ حکومت ایسا کرے گی تو اس کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پیر کو قومی اسمبلی میں خواجہ آصف اور پرویز رشید نے یہ اعلان کیا تھا کہ حکومت اپنے طور پر بیرون ملک سفر کی اجازت نہیں دے گی۔
خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ’’انہیں سزا دی جائے یا چھوڑ دیاجائے، حکومت صرف عدالت کے حکم کی پیروی کرے گی۔‘‘
وزیراعظم کے معاون نے کہا کہ بالآخر یہ نواز شریف کا یہ فیصلہ ہوگا کہ مشرف کی درخواست کو منظور کیا جائے یا مسترد کردیا جائے۔
تاہم قطع نظر اس بات کے کہ اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے، ایک بات تو یقینی ہے کہ وزیراعظم خصوصی عدالت کے ذریعے مشرف کے مقدمے کی تکمیل چاہتے ہیں۔