• KHI: Zuhr 12:37pm Asr 5:02pm
  • LHR: Zuhr 12:08pm Asr 4:34pm
  • ISB: Zuhr 12:13pm Asr 4:39pm
  • KHI: Zuhr 12:37pm Asr 5:02pm
  • LHR: Zuhr 12:08pm Asr 4:34pm
  • ISB: Zuhr 12:13pm Asr 4:39pm

جان لیوا سناٹا

شائع March 8, 2014

بھوسے کا ڈھیر اٹھائے اس نوجوان شخص کی آنکھیں نہ جانے خلاء میں کیا ڈھونڈھ رہی تھیں- اس نے اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھا ہوا تھا جنہیں وہ کبھی کبھار اپنی بنی ہوئی جیکٹ کی جیبوں میں کچھ تلاش کرنے کیلئے ڈال دیتا تھا-

سب سے دور اور الگ تھلگ، اس کا کا یہ بے خیالی کا برتاؤ اس کے اس پاس کے لوگوں سے میل نہیں کھاتا تھا- اس نے اپنی کنپٹی سے پسینہ پونچھا اور ادھر ادھر دیکھا- اس نے خود کو خاصے کم لوگوں میں پایا-

اپنے آپ کو گھسیٹتے ہوئے اس نے ایک نسبتاً سنسان کونے کا انتخاب کیا اور اپنا سر ایک کھمبے پر ٹکا کر ٹانگیں ایک دوسرے پر رکھ دیں- وہ جلدی میں تو نہیں تھا یا پھر کم از کم لگ یہی رہا تھا-

مجھے اپنے آپ میں ایک بے چینی محسوس ہونے لگی- اپنے موجودہ محل وقوع کے بارے میں، میں پہلے ہی اچھا محسوس نہیں کر رہا تھا اور مجھے ان تمام حالیہ واقعات کے بارے میں بھی علم تھا، جو کہ نزدیکی علاقوں، ان کے اس پاس اور دور دراز میں ہوئے تھے- اور یہ سب واقعات، کسی بھی طرح اچھے واقعات نہیں کہے جا سکتے تھے-

میں اپنی نگاہیں اس سے نہیں ہٹا پا رہا تھا- اب اس نے اپنا دایاں بازو، ایک ستوں کے گرد لپیٹ دیا تھا اور وہ واضح طور پر بے چین نظر آ رہا تھا-

اس کی آنکھوں میں کچھ ہلاکت خیز چیز تھی، شاید خطرناک قسم کی وفاداری- اس کے باوجود میں کچھ نہیں کر پا رہا تھا، میں بے بس تھا-

پھر میں نے اس کے سپاٹ چہرے پر ایک عجیب قسم کی چمک دیکھی- اس کی گھنی بھنویں ایک دوسرے سے اور زیادہ مل گئیں اور اس نے اپنے ہونٹ پھیلا دیے، ویسے خالی دکھائی دینے والی آنکھوں میں یکدم جوش جھلکنے لگا-

لوگوں نے عقیدت سے بزرگ کی قبر کو گھیر لیا جو یہاں اپنے انگنت ادھورے خواب لئے سو رہے تھے-

وہ سب اپنی نصیبوں کا شکار تھے- انہوں نے دیواروں کو چوما- ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں، ان کے گلے رندھ گئے اور خود سپردگی میں انہوں نے اپنے ہاتھ بندہ لئے-

کچھ نے کلام پاک پڑھنا شروع کر دیا تو باقیوں نے اپنی ایماندار انگلیوں میں تسبیح کے دانے گھمانا شروع کر دئے- ان کے منہ تھوڑے کھلے ہوئے تھے لیکن انکی سانسوں میں ایک خدائی خاموشی سنائی دے رہی تھی-

عورتوں کا بھی ایک گروپ موجود تھا، جن میں سے چند اپنے سینوں پر بچوں کو سلائے ہوئے تھیں جبکہ باقیوں نے اپنے بڑوں کے ہاتھ تھامے ہوئے تھے-

میں یکایک لڑکھڑا گیا، مجھے ایسا لگا جیسے میرا دل میرے سینے میں ڈوبنے لگا ہے- ایک عجیب سے سنسنی تھی، مجھے احساس ہوا کہ اس سے پہلے ایسی شدت کبھی محسوس نہیں کی-

میں نے اس نوجوان پر ایک چور نگاہ ڈالی- وہ اپنی سستی، کاہلی سب پیچھے چھوڑ کر ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑا تھا- اس کی آنکھیں اب بھی شبہے اور خوشی کے امتزاج سے چمک رہی تھیں-

ایک لمحے کیلئے وہ ٹھٹکا- اپنے لرزتے ہاتھوں کو ملتے ہوئے اس نے ایک بار پھر اپنا جسم ستون سے ٹکا دیا- اس کی نگاہوں ان بچوں پر جمی ہوئی تھیں جو اپنی ماؤں سے چمٹے ہوئے تھے- اس نے ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھا-

وہ جگہ تقریباً بالکل بھر چکی تھی جہاں سرگوشیاں، زیرلب تلاوت اور کبھی کبھار کسی بچے کی آواز گونجتی- اس نے بغور اور بہت دیر تک اس بے چین بچے کو دیکھا جو اپنی ماں کی قمیض کھینچ کر اسے اس گھٹن کا احساس کرانا چاہ رہا تھا جو اتنے سارے لوگوں کی اس کمرے میں موجودگی کی وجہ سے ہو گئی تھی-

وہ رک گیا جیسے وہ چاہتا ہو کہ بچہ چلا جائے-

عورت نے بچے کو درگاہ کی کرامات دلانے کیلئے بچے کو کھینچ کر قبر کے نزدیک کر دیا-

یہ وہ لمحہ تھا جب اس کی آنکھیں غصے اور نفرت سے بھر گئیں- وہ بچے کی موجودگی سے خوش نہیں تھا لیکن ایسا لگتا تھا کہ اس کے پاس وقت نہیں بچا- لہٰذا اس نے جلدی کی-

پسینے میں شرابور وہ لڑکھڑاتا ہوا ستون سے دور ہوا-

میں نے اس کا ہاتھ اس کی جیکٹ میں جاتے دیکھا-

میں نہیں جانتا کہ اگر کسی اور کے ساتھ یہ سب کچھ ہو تو اسے کیسا لگے گا لیکن اس وقت مجھے واقعی پتہ تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے-

میں دھماکوں سے خوفزدہ تھا لہٰذا میں نے اسی جگہ گرنے کا فیصلہ کیا- 'وقت ہو گیا ہے'، میں نے اپنے آپ سے کہا اور ایک لمبی سانس لے کر اسے روک لیا-

جب میں نے سانس باہر نکالی تو چیخیں شروع ہو چکی تھیں-

کوئی روتے ہوئے چلایا "دیکھو، مزار ڈھے گیا ہے"-

میں نے سننے کی کوشش کی لیکن مجھے کوئی دھماکہ سنائی نہ دیا- صرف ایک جان لیوا سناٹا تھا-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

حسن منصور
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 28 مارچ 2025
کارٹون : 27 مارچ 2025