افغانستان سے تجارت
گذشتہ برسوں کے دوران افغانستان، پاکستان کے لیے سازو سامان، خدمات اور مزدوروں کی ایک بڑی منڈی کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کا حجم بڑھ کر، دو اعشاریہ اڑتیس ارب ڈالر کے ساتھ دُگنا ہوچکا۔ چھ برس قبل یہ تجارتی حجم ایک ارب ڈالر سے بھی کم تھا۔
سرکاری سطح پر افغانستان کا کہنا ہے کہ امریکا کے بعد پاکستان اس کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ غیر دستاویزی اور غیر رسمی ذرائع سے ہونے والی تجارت، جس کے حجم کا تخمینہ پانچ ارب ڈالر سالانہ لگایا جاتا ہے، یہ بھی اس کا ایک عنصر ہے۔
بہ الفاظِ دیگر، جہاں تک ہمارےمعاشی و تجارتی مفادات کا تعلق ہے تو کمزور داخلی سیکیورٹی صورتِ حال کے باوجود یہ ہمارے مغربی ہمسائے ہندوستان سے کسی طور پر بھی کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان سرکاری سطح پر کی جانے والی باہمی تجارت کے حجم کو بڑھانے کے واسطے اقدامات کی ضرورت ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس طرح ہماری صنعتوں کو بھی توانائی سے مالا مالال وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی مل سکتی ہے۔
علاوہ ازیں، ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ایران اور ہندوستان سے ہونے والی برآمدات کی شرح میں اضافے کے باعث، باہمی تجارتی حجم میں کمی کے بھی خدشات ہیں۔ ہندوستان ایرانی بندرگاہ چاہِ بہار کے ذریعے افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کی منڈی تک رسائی کے ایک منصوبے پر بھی کام کررہا ہے۔
افغانستان، ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو بہتر بنارہا ہے اور ہندوستان نے بھی اس کے اظہار کی شروعات کردی ہیں جبکہ اسٹیٹ بینک کے اعدادو شمار ظاہر کرتے ہیں کہ جاری مالی سال کے دوران افغانستان کے ساتھ کی جانے والی پاکستانی تجارت میں اس وقت تک پندرہ فیصد کی کمی آچکی ہے۔ گذشتہ مالیاتی برس بھی اس تجارت میں معمولی کمی دیکھی گئی تھی۔
اس پس منظر میں، کابل میں منعقدہ مشترکہ اقتصادی تعاون کے اجلاس میں، پاکستان اور افغانستان، دونوں ملکوں کے وزرائے خزانہ کی جانب سے باہمی تجارت کو فروغ دینے پر اتفاق سے تجارتی مراسم میں بہتری کی امید نظر آتی ہے۔
طورخم ۔ جلال آباد شاہراہ کو ڈبل کرنے کے منصوبے کی تکمیل سے بھی باہمی تجارت کے فروغ پر دُور رس اثرات رونما ہوں گے۔ منصوبے پر کام کا افتتاح مشترکہ اقتصادی تعاون اجلاس کے وقت ہوا تھا۔
دونوں ملکوں کو ریلوے نظام کے ساتھ منسلک کرنے کا منصوبہ بھی طویل عرصے سے منتظر ہے، انفرا اسٹرکچر کی بہتر سہولیات کی فراہمی سے بھی باہمی تجارت کے فروغ میں کافی مدد مل سکے گی۔
اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ ٹیرف اور نان ٹیرف، دونوں رکاوٹیں دور کرنے کے لیے کابل کو قائل کرے، جس کی وجہ سے، سرحد کے اِس پار سے سامان کی ترسیل کی رفتار سست پڑجاتی ہے۔
لیکن اس سے پہلے کہ افغانستان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا جائے، خود پاکسان کو اپنی جانب سے عائد کردہ وہ پابندیاں ختم کرنی ہوں گی جس کی وجہ سے ڈیورنڈ لائن کے پار، پاکستانی مصنوعات کی بڑھتی طلب سے فائدہ اٹھانے میں رکاوٹ پیش آتی ہے۔