• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

'پاکستان صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک'

شائع February 12, 2014
کوئٹہ میں ٹی وی کے صحافی ایک مظاہرے کے دوران نعرے لگارہے ہیں۔ میڈیا کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے (آر ایس ایف) رپورٹرز ودھ آؤٹ بارڈرز (سرحدوں سے آزاد نامہ نگار) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملکوں میں شامل ہے۔ —. فائل فوٹو اے پی
کوئٹہ میں ٹی وی کے صحافی ایک مظاہرے کے دوران نعرے لگارہے ہیں۔ میڈیا کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے (آر ایس ایف) رپورٹرز ودھ آؤٹ بارڈرز (سرحدوں سے آزاد نامہ نگار) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملکوں میں شامل ہے۔ —. فائل فوٹو اے پی

کوئٹہ: میڈیا کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے (آر ایس ایف) رپورٹرز ودھ آؤٹ بارڈرز (سرحدوں سے آزاد نامہ نگار) نے بدھ کو جاری کی جانے والی اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان اپنے شورش زدہ صوبے بلوچستان سمیت جو تشدد کے لیے ایک خطرناک مقام بن چکا ہے، صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملکوں میں شامل ہے۔

حکومت پر انصاف کی فراہمی میں سستی کا الزام عائد کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013ء میں سات رپورٹرز اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک کردیے گئے تھے۔

اس کے مقابلے میں دس صحافی شام میں ہلاک ہوئے، آٹھ فلپائن میں اور سات صومالیہ میں۔

180 ملکوں کی پریس فریڈم انڈیکس میں سے پاکستان کو ایک سو اٹھاون واں ملک قرار دیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ”حکومت نے طالبان کے سامنے خود کو بے اختیار ظاہر کیا ہے، اور بہت سے بین الاقومی مبصرین فوجی اسٹیبلشمنٹ کو ریاست کے اندر ایک ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں۔“

پاکستان میں 2013ء کے دوران ہلاک ہونے والے سات صحافیوں میں سے چار صحافیوں کی ہلاکتیں پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں ہوئی تھیں، جو ایک طویل عرصے سے اسلام کے نام پر تشدد اور نسلی علیحدگی پسندوں کی بغاوت کا شکار ہے۔

کیمرہ مین عمران شیخ اور ان کے ساتھ سیف الرحمان صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں جنوری 2013ء کو ایک بم دھماکے کی کوریج کے لیے پہنچے تھے، جہاں وہ دونوں ہی دس منٹ کے بعد ہونے والے دوسرے دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے۔

عمران شیخ کی بیوہ شازیہ بانو نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کا خاندان مستقل خطرے میں زندگی گزار رہا تھا، لیکن وہ اس کی پروا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ”وہ خوفزدہ نہیں ہوتے تھے اور اکثر یہی کہا کرتے تھے کہ یہ ہماری جاب ہے اور ہمیں ہی اسے پورا کرنا ہے۔ میں عموماً انہیں مجبور کرتی تھی کہ وہ صحافی کی ملازمت چھوڑ دیں، لیکن وہ جواب دیتے کہ اگر میں اسے چھوڑ دیتا ہوں تو مجھے کیا کرنا چاہیٔے؟“

عمران شیخ اور سیف الرحمان تو عسکریت پسندوں کے تشدد کا شکار ہوئے تھے، جبکہ دوسرے صحافی حکومت یا انٹیلی جنس اداروں سے منسلک طاقتور مفادات کا نشانہ بنے۔

ایک صحافی ریاض بلوچ نے کار چوری کی ایک کارروائی میں حکومت نواز شخصیات کے منسلک ہونے کی ایک اسٹوری شایع کی تھی، اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں اغوا کرلیا گیا، ان پر تشدد کیا گیا اور ان کو تقریباً ساٹھ دنوں تک حراست میں رکھا گیا۔

”وہ مجھے پہاڑوں پر لے گئے۔ جہاں مجھ پر شدید تشدد کیا گیا اور مجھ سے پوچھا گیا کہ آخر کیوں میں نے یہ خبر شایع کی۔“

پاکستان کا آئین نظریاتی طور پر اظہارِ رائے کی آزادی کو تحفظ دیتا ہے، اور دیکھا گیا ہے کہ میڈیا نے حالیہ برسوں کے دوران بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

لیکن بعض مضامین، خاص طور پر سب سے زیادہ طاقتور فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر تنقید اب بھی ممنوع ہے۔

گزشتہ سال پاکستان کو نو صحافیوں کی ہلاکتوں کے ساتھ پریس فریڈم انڈیکس میں 179 ملکوں میں ایک سو انسٹھواں ملک قرار دیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024