جنیوا مذاکرات: ایران کو دعوت پر شامی باغیوں کی عدم شرکت کی دھمکی
اقوامِ متحدہ: شام کی حزب اختلاف نے آج بروز پیر کو ایک بیان میں یہ کہا ہے کہ وہ اس ہفتے کو طے شدہ بین الاقوامی امن مذاکرات میں شرکت کے فیصلے سے دستبردار ہوجائی گی، جب تک کہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اس مذاکرات میں شرکت کے لیے صدر بشارالاسد کے پشت پناہ ایران کو دی گئی دعوت واپس نہیں لے لیتے۔
تاہم واشنگٹن نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ وہ ایران کی شرکت کی حمایت کرسکتا ہے، اگر وہ ایک سیاسی تبدیلی کے لیے جون 2012ء کے منصوبے کی غیر مبہم حمایت کا اعلان کرے، جس کے اقوامِ متحدہ کی مراد تھی کہ بشارالاسد پیچھے ہٹ جائیں گے۔
امریکی دفترِ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ”ایران نے کبھی بھی عوامی بیان میں ایسا کچھ نہیں کہا اور ہمیں اس حوالے سے وضاحت کی ضرورت ہے۔“
انہوں نے کہا کہ ”اگر ایران مکمل طور پر عوامی سطح پر جنیوا اعلامیہ کو تسلیم نہیں کرتا تو اس دعوت کو لازمی طور پر منسوخ کردیا جانا چاہیٔے۔“ یاد رہے کہ اس سے پہلے بان کی مون نے ایران کو بائیس جنوری کو سوئٹزرلینڈ کے شہر مونٹروکس میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے دن شرکت کی دعوت دی تھی اور ایران نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس کو شرکت کے لیے کہا گیا تو وہ مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے گا۔
شام کے مرکزی حزبِ اختلاف کے جلاوطن گروپ قومی اتحاد نے ”جنیوا ٹو“ کے نام سے منعقد ہونے والے مذاکرات میں شرکت سے رضامندی ظاہر کرنے کے اڑتالیس گھنٹوں سے بھی کم وقفے کے بعد شرکت سے دستبرداری کی دھمکی دی ہے۔
شام کے قومی اتحاد کے ترجمان لوئے صافی نے ٹوئیٹر پر اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ ”جب تک کہ بانی کی مون ایران کو دی گئی دعوت کو واپس نہیں لے لیتے، شامی اتحاد جنیوا ٹو مذاکرات میں اپنی شرکت سے دستبرداری کا اعلان کرتا ہے۔“
شامی اتحاد کے ایک اور سینئر رکن انس البداہ نے الجزیرہ ٹی وی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو دی جانے والی دعوت پر ان کی جماعت کو حیرت ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ”یہ غیرمنطقی ہے اور ہم اس کو کسی بھی طرح سے تسلیم نہیں کرسکتے۔“
شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور شام کی ایک چوتھائی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی ہے، اس خانہ جنگی کی شروعات بشارالاسد کے خاندان کے چالیس سالہ دورِ اقتدار کے خلاف پُرامن احتجاج سے شروع ہوئی تھی جو مخالف فریقین کو سنی عرب ریاستوں اور شیعہ ایران کی جانب سے اسلحہ اور فنڈز کی فراہمی کے ذریعے اب فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے۔
مغربی اور خلیج کی عرب اقوام کا کہنا ہے کہ وہ ایران کی مذاکرات میں شرکت کے تصور کی حمایت سے اس لیے گریزاں رہے ہیں کہ وہ شامی صدر بشارالاسدکی افواج کی مدد کررہا ہے اور شام میں سیاسی تبدیلی کے منصبوبے کے لیے جون 2012ء میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس کے اعلامیہ کی کبھی حمایت نہیں کی۔
بان کی مون کو توقع ہے کہ ایران جلد ردّعمل ظاہر کرے گا:
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ انہوں نے ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف سے حالیہ دنوں میں طویل بات چیت کی ہے، اور اسی لیے انہیں یقین ہے کہ تہران جنیوا 2012ء کے منصوبے کی حمایت کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ”جواد ظریف نے مجھے یقین دہانی کرائی تھی کہ سوئٹزرلینڈ کے شہر مونٹروکس میں منعقدہ مذاکرات کے افتتاحی دن میں مدعو کیے گئے دیگر تمام ممالک کی طرح ایران بھی تیس جون 2012ء کے جنیوا اعلامیہ کے مکمل نفاذ کی بنیاد پر یہ مذاکرات منعقد ہورہے ہیں۔“
بان کی مون نے کہا کہ ”وزیرِ خارجہ ظریف اور میں اس بات پر متفق تھے کہ اس مذاکرات کا مقصد باہمی رضامندی کے ذریعے مکمل اختیارات کے ساتھ ایک عبوری حکومت کا قیام ہے۔“
انہوں نے کہا کہ ”یہ دعوت وزیرِ خارجہ ظریف کے اس وعدے کی بنیاد پر دی گئی تھی کہ ایران مونٹروکس میں ایک مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے گا۔“
بان کی مون نے بتایا کہ ”لہٰذا کانفرنس کے کنوینئر اور میزبان کی حیثیت سے میں نے فیصلہ کیا کہ ایران کو اس میں شرکت کی دعوت دی جائے۔“
”ایران اہم پڑوسی ملکوں میں سے ایک ہے، اس لیے اس کی شرکت کی ضرورت ہے۔“ بان کی مون نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ ایران جلد ہی دعوت کے جواب میں ایک بیان جاری کرے گا۔
اس سے پہلے اسی سال میں اقوامِ متحدہ نے کہا تھا کہ شام میں قیام امن کے لیے مونٹروکس میں ہونے والی کانفرنس میں ایران ایک کردار ادا کرسکتا ہے۔
تہران نے اس خیال کو مسترد کردیا تھا کہ یہ اس کے وقار کے منافی ہے۔
اس مذاکرات کے اہم کردار بشار الاسد کی حکومت اور اس کے مخالف باغی گروہ ہیں۔ مختلف اسلامی لڑاکا فورسز پر مشتمل ایک اتحاد اسلامک فرنٹ جو باغیوں کے ایک بڑے حصے کی نمائندگی کرتا ہے، نے کل بروز اتوار کو کہا تھا کہ وہ مذاکرات کو مسترد کرتے ہیں۔ جس سے اس کی کامیابی کی امیدیں مزید کم ہوگئی تھیں۔
بان کی مون نے کہا کہ انہوں نے اتوار کو کل دس اضافی ملکوں کو بائیس جنوری کی کانفرنس میں مدعو کیا ہے، جن میں آسٹریلیا، بحرین، بیلجیم، یونان، لکسمبرگ، میکسیکو، ہالینڈ، ساؤتھ کوریا اور ایران شامل ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہیڈکوارٹرز پر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بان کی مون نے واضح کیا کہ شامی حکومت اور حزبِ مخالف کے درمیان سنجیدگی کے ساتھ براہِ راست مذاکرات چوبیس جنوری کو جنیوا میں شروع ہوں گے۔
شامی حزبِ اختلاف اور واشنگٹن تہران پر اسد کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہیں، کہ وہ افرادی قوت اور اسلحہ فراہم کرکے ان کی مدد کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایران کی اس مذاکرات میں شرکت سے متعلق تحفظات رکھتے ہیں، اگرچہ بان کی مون اور شام کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی مندوب لخدار براہیمی طویل عرصے سے ایران کی شرکت کی حمایت کررہے ہیں۔
حالانکہ گزشتہ سال ایران اور امریکا کے اتحاد میں گرمجوشی پیدا ہوئی ہے، اور چوبیس نومبر کو ایران کے جوہری منصوبے کے حوالے سے ایک معاہدہ بھی طے پایا تھا، لیکن اس سلسلے میں کوئی بڑی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی ہے، خاص طور پر شام جیسے دیگر معاملات پر، جہاں جاری خانہ جنگی کے مخالف فریقوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔