آرٹیکل چھ کے تحت پہلے مجھ پر مقدمہ چلایا جائے: چوہدری شجاعت
اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے، اس لیے کہ انہوں نے تین نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کرنے پر سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی تھی۔
پیر چھ جنوری کو ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے چوہدری شجاعت نے کہا کہ اس سلسلے میں سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی، سابق وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر بھی جنرل پرویز مشرف کی مختلف مواقعوں پر حمایت کرنے پر مقدمہ چلایا جائے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ تین نومبر 2007ء کے اقدام پر مقدمہ چلانے کے بجائے، بارہ اکتوبر 1999ء کے اقدام پر مقدمہ چلانا چاہئیے، جب کہ جنرل مشرف نے بحیثیت آرمی چیف نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔
مسلم لیگ ق کے صدر نے جنرل مشرف پر چلائے جانے والے اس مقدمے کے لیے لفظ ”غداری“ کے استعمال پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ لفظ ایک ایسے فرد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس نے ملک کے دشمنوں کے ساتھ شمولیت اختیار کرلی ہو۔
جنرل مشرف کی ملک پر حکمرانی کے دور میں چوہدری شجاعت جو حکمران پارٹی کے سربراہ تھے، نے سوال کیا کہ ”ہم اپنے آرمی چیف کو غدار قرار دے کر دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟۔“
ان کی رائے تھی کہ ”ریاست سے غداری“ کا لفظ آئین میں بالکل نہیں ہونا چاہیٔے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ لوگ جنہوں نے ماضی میں اس شخص سے حلف لے کر وزارتوں کے مزے اُڑاے جسے وہ غدار قرار دے رہے ہیں اور اب آرٹیکل چھ کے تحت اس کے خلاف کارروائی کی بات کررہے ہیں۔
تاہم متحدہ قومی موومنٹ جو مشرف کے عہدِ حکومت کے دوران مسلم لیگ ق کی حکومتی اتحادی تھی، کے کسی بھی قانون ساز نے سابق فوجی سربراہ کی حمایت میں بات نہیں کی۔
لیکن جمیعت العلمائے اسلام (جے یو آئی ایف) کے مولانا عبدالغفور حیدری نے مسلم لیگ ق کے سربراہ کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ تنہا جنرل مشرف پر مقدمہ چلانا انصاف کی روح کے خلاف تھا۔ انہوں نے کہا کہ سابق صدر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جب 1999ء میں منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا تو وہ دورانِ پرواز فضا میں تھے۔ لہٰذا اُن تمام لوگوں پر مقدمہ چلایا جانا چاہیٔے، جو اس وقت زمین پر موجود تھے اور ان کی جانب سے کام کررہے تھے، چاہے وہ جرنل تھے، ججز یا سیاستدان تھے۔
چوہدری شجاعت کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے مشاہد اللہ خان نے کہا کہ جب فوجی آمر پر مقدمہ شروع کیا گیا تو اس وقت سیاسی جماعتوں کا نکتہ نظر مختلف تھا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے خلاف مقدمے کا مقصد انہیں پھانسی دینا یا عمرقید کی سزا دلوانا ہرگز نہیں تھا، بلکہ اس کلچر کا خاتمہ کرنا تھا، جس کے تحت طاقت کا استعمال کرکے ملک پر قبضہ کیا جاتا رہا تھا، اور آئی ایس آئی کے دفتر میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی جاتی تھی۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ یہ وہ شخص ہیں جنہوں نے ماضی میں مکا دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک بہادر مرد ہیں، اور اب وہ بجائے عدالت کا سامنا کرنے کے ہسپتال میں داخل ہیں۔
ایک رپورٹ جس میں بتایا گیا تھا کہ جنرل مشرف کا لندن کا فلیٹ فروخت ہوگیا تھا، کا حوالہ دیتے ہوئے مشاہد اللہ خان نے کہا کہ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ سابق فوجی آمر ہسپتال سے ریئل اسٹیٹ کاکاروبار کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسا شخص جو بائیس گریڈ کے افسر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوا ہو، اس قدر پیسہ اس نے کس طرح کمایا کہ وہ اندرون ملک اور بیرون ملک اربوں روپے کی مالیت کی جائیداد کا مالک ہے۔
اس سے پہلے ایم کیو ایم کے سینیٹروں کو جب پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر کریم خواجہ کی تقریر کا جواب دینے کی چیئرمین کی جانب سے اجازت نہیں دی گئی تو انہوں نے ایک علامتی واک آؤٹ کیا، کریم خواجہ نے سندھ کی تقسیم سے متعلق الطاف حسین کے بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن نے اے این پی کے حاجی عدیل کی ایک تحریک کی مخالف کی، جس میں انہوں نے اسٹیٹ بینک کے ہیڈآفس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کا مطالبہ کیا تھا۔
اس کے علاوہ سینیٹ نے پیپلزپارٹی کی صغریٰ امام اور رضا ربّانی کی جانب سے مشترکہ طور پر پیش کیا جانے والا بائیسویں آئینی ترمیم کا بل قائمہ کمیٹی کو غوروخوص کے لیے حوالے کردیا۔ یہ بل دہری شہریت رکھنے والوں کو سول سروس، مسلح افواج اور عدلیہ میں شمولیت سے روکنے سے متعلق ہے۔