• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

پشاور کے تاجر۔ غیرقانونی افغان موبائل سموں کے شکار

شائع January 2, 2014
صوبہ خیبرپختونخوا میں افغان غیرقانونی سموں کا استعمال اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری میں کیا جارہا ہے، جن کا سراغ لگانا پولیس کے لیے دشوار ہے۔ —. فائل فوٹو
صوبہ خیبرپختونخوا میں افغان غیرقانونی سموں کا استعمال اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری میں کیا جارہا ہے، جن کا سراغ لگانا پولیس کے لیے دشوار ہے۔ —. فائل فوٹو

پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کے حوالے سے افغان عنصر کے اثرات سب پر عیاں ہیں، اس عنصر کی وجہ سے جو چیلنجز سامنے آئے ہیں ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہماری سرحدیں غیرمحفوظ ہوکر رہ گئی ہیں۔ اگرچہ قبائلی افراد کے لیے علاقوں کی تقسیم بے معنی ہوتی جارہی ہے اور دیکھنے میں آرہا ہے کہ نئی تجارتی اشیاء کا تبادلہ ایک نئی پریشان کن تصویر پیش کررہا ہے۔

سترہ دسمبر کو دو افغان باشندے پشاور کے علاقے پشتہ خارہ سے گرفتار کیے گئے تھے، جن کے پاس سے اٹھارہ ہزار افغان موبائل فون سمیں (سیل فون سبسکرائبر آئیڈنٹیٹی ماڈیولز-سم) برآمد ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ ہمسایہ ملک میں کام کرنے والے نیٹ ورکس کی سمیں حال ہی میں ایک غیرقانونی کال سینٹر سے بھی برآمد ہوئی تھیں، جو دو سال سے بلا روک ٹوک استعمال کی جارہی تھیں۔ وہ لوگ سرحدی علاقوں میں افغانستان کے نیٹ ورکس کی رومنگ کی سہولیات سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ یہ سمیں فاٹا میں بھی استعمال کی جاتی ہیں، جہاں مقامی ٹیلی کام کمپنیز کے سگنلز بلاک ہیں۔ لوگوں نے وہاں انٹینا کی تنصیب کر رکھی ہے تاکہ افغانستان کی ٹیلی کام کمپنیز کے سگنلز پکڑ سکیں۔

دسمبر کی گرفتاریوں کے بعد پولیس حکام نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ افغان سمیں پاکستان میں ناقابل گرفت ہیں، جنہیں اغوا برائے تاوان اور بھتہ وصولی کے جرائم میں استعمال کیا جارہا ہے۔

ناصرف یہ پشاور کے تاجروں کے لیے سیکیورٹی خطرات کا سبب بنی ہوئی ہیں، بلکہ اغوا برائے تاوان یا قتل اور ڈکیتی، رقم طے کرنے کے لیے۔ تاجروں، دکانداروں اور ہاکروں کو اس شدت سے کبھی بھی بھتہ خوروں کا سامنا کرنا نہیں پڑا ہے۔ جبکہ بھتہ خوری کراچی میں عام ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت میں پہلے یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ پولیس کی کارکردگی کی رپورٹ جو ہرسال کے اختتام پر جاری کی جاتی ہے، اس کے اندر کبھی بھی بھتہ خوری کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی۔

خیرپختونخوا کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر زاہد اللہ شنواری کہتے ہیں کہ ”اگر کہیں کسی دو فرد کی اپنے گھر میں وفات ہوجائے، تو اس کامطلب ہوگا کہ اس گھرانے نے دو افراد کو کھو دیا ہے۔ لیکن اگر کسی فرد کو بھتہ خور کی جانب سے ایک فون کال موصول ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ اس خاندان کا ہر فرد ہر ایک دن موت کے تجربے سے گزرتا رہے گا۔“ انہوں نے واضح کیا کہ پشاور کی کاروباری برادری کی جانوں کو کس قدر خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔

اس نئی تلخ اور ضدی حقیقت کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ میں اضافہ ہوگیا ہے، حالانکہ وہ پہلے ہی تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کے خلاف زمین ہموار کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

مختلف صورتوں میں ٹیلی فون کے ذریعے کیا جانے والا بھتہ خوری کا مطالبہ موبائل فون سے کیا گیا، جن کا سراغ لگانے پر معلوم ہوا کہ یہ کالز افغان کمپنیوں کی سموں کے ذریعے کی گئی تھیں، جو پاکستان میں آپریٹ کررہی ہیں، یا پھر رومنگ کی سہولت دیتی ہیں، یا پھر وہ کال اس ملک سے کی گئی تھی۔

دیگر کیسز میں بھتہ خور لنڈی کوتل اور طورخم کے سرحدی قصبوں سے کال کرتے ہیں۔ یہ ان کے سردرد میں اضافہ ہے، اس لیے کہ پاکستان کے اندر سے چھینے والے موبائل فون پہلے ہی افغانستان اسمگل کردیے جاتے ہیں۔

پشاور کی سٹی پولیس کے سپریٹندنٹ اسماعیل کھرک کہتے ہیں کہ ”ہم گہری مصیبت میں پھنس چکے ہیں۔“

اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے دیگر کوششیں بھی کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ نے چوبیس دسمبر کو پشاور میں افغان سموں کو بلاک کرنے کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ہدایات دی تھیں، جس کا بدستور کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ بہت سے لیٹرز پی ٹی اے اور فاٹا کی سول انتظامیہ کو لکھ چکے ہیں کہ افغان سموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ایک مقامی کاروباری شخصیت ایک مثال کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ”ایک مرتبہ جب ہم ہندوستان میں داخل ہوجاتے ہیں تو ہمارے موبائل فون کام کرنا بند کردیتے ہیں۔“

نوکرشاہی نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے ہیں، جبکہ پشاور کی کاروباری برادری اپنے حق میں جو کرسکتی ہے وہ کررہی ہے۔ بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں کو چھوڑنے کا مشکل فیصلہ کرکے لاہور یا اسلام آباد میں رہائش اختیار کرلی ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو بہادری سے حالات کا مقابلہ کررہے ہیں۔ لیکن یہ مشکلات بہت تیزی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں۔

ایک بزرگ کابل خان جو شہر کی سرفہرست کاروباری شخصیات میں شامل ہیں، اس جنگ میں نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے۔ انہیں اس پُرہجوم شہر کی قریبی آبادی میں ان کے گھر کے سامنے گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ اور مایوسی کے عالم میں زاہد اللہ شنواری پوچھتے ہیں کہ ”آخر کب تک ہم یہ سب کرسکتے ہیں یا پھر بھتے کی ادائیگی جاری رکھنی چاہئیے؟“

پشاور میں کاروباری افراد کے لیے یہ خطرات بڑھتے جارہے ہیں، چاہے ان کے کاروباری ادارے کا حجم کتنا ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے پہلے وہ اغوا اور دباؤ ڈالنے کی دیگر قسموں کے بارے میں کچھ نہیں کہتے تھے، انہیں دیسی ساختہ دھماکہ خیز ڈیوائسز کے سفاکانہ ہتھکنڈوں کے خطرات اپنے گھروں کے باہر درپیش تھے۔ اب اس فہرست میں بھتہ خوری بھی شامل ہوچکی ہےاور اس میں افغان سموں کا استعمال کیا جارہا ہے، اور اس کو ثابت کرنا بھی آسان کام نہیں ہے۔ اب مستقبل کے بارے میں کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024