حکومتی ہچکچاہٹ
اعلیٰ سطح پر واضح اور اعتماد کی کی تصویر پیش ہونے سے بہت دور ہے۔ وزیراعظم ہاؤس سے آنے والے فیصلوں میں تذبذب سے ظاہر ہورہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کی حکومت کے پاس کھیل کی واضح منصوبہ بندی نہیں ہے۔ اور خود نواز شریف کو اقتدار میں کافی عرصہ ہونے کو آیا لیکن بڑے فیصلے کرنے میں انہوں نے چھ مہینے لگادیے۔
لہٰذا، اہم عہدوں پر اعلیٰ حکام کی تقرریوں میں ہونے والی تاخیر بنا جواز ہے۔ یہاں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جب فیصلہ سازی کے عمل میں حکومت تذبذب کا شکار نظر آئی ہے۔ ابھی حال ہی میں وزارتِ خارجہ کے اندر تقرریوں کے عمل میں کھیلا جانے والا میوزیکل چیئر گیم اس صورتِ حال کی تازہ ترین مثال ہے۔
نادرا اور پیمرا کے سربراہوں کی برطرفی اور پھر عدالتی حکم پر بحالی اور پیمرا میں بیک وقت دو چیئرمینوں کی موجودگی کا بحران، قیادت کے فقدان اور حکومتی عہدیداروں کی واضح سمت نہ ہونے کا اظہار ہے۔
علاوہ ازیں، عوامی شعبے میں کام کرنے والے پی آئی اے، اسٹیل مل اور پی ٹی وی سمیت متعدد دیگر بڑے ادارے چیف ایگزیکٹیوز یا منیجنگ ڈائریکٹرز کے بغیر کام کررہے ہیں، حالانکہ ان اسامیوں پر تقرریوں کی خاطر گذشتہ جون میں اشتہار دیے گئے تھے جن سے شفافیت کا تاثر ملا تھا لیکن اس کے باوجود زیادہ تر ادارے اب تک بنا سربراہ کے کام کررہے ہیں۔
ان افسران کی تقرریوں میں تاخیر کا سبب کیا ہے، خاص طور پر ایسے میں کہ جب اکثریت کے اندر اس حوالے سے خدشات بڑھتے جارہے ہوں؟
خواہ حکومت ان اداروں کو بحال کرے یا پھر نجکاری کردے، کُل وقتی اہل منتظم (منیجرز) کے بغیر یہ مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ اوپر سے نیچے کی طرف، پبلک کارپوریشنز تک پہنچنے والے ان اثرات سے محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد میں قیادت کا فقدان ہے۔
یہ شاید جناب شریف کے نہایت مرکزیت کے حامل کام کے طریقہ کار کی وضاحت کرتا ہے۔ یہاں، وزیراعظم پر کی جانے والی تنقید حق بجانب محسوس ہوتی ہے کہ وہ اختیارات کو چند ہاتھوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں اور اگر نگرانی کے اس بوجھ میں شراکت کی بھی تو اسے دوسروں تک منتقل کرنے کے بجائے، اپنے ہی خاندان کے ارکان تک محدود رکھا ہے۔
لیکن حکومت کرنے کا یہ انداز نہایت مشکلات کھڑی کرنے والا ہے، جس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ حکومت جمود کا شکار ہے۔ ضرورت ہے کہ خالی عہدوں پر بنا تاخیر تقرریاں کردی جائیں۔
اگرچہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ حکومتی فیصلہ سازی کا عمل، عدالتی مداخلت کے سبب متاثر ہورہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر برطرفی یا تبادلہ، قابلِ اعتراض طریقوں سے ہو تو پھر متاثرہ فرد کو عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار ہے۔
حکومت کو درکارتبدیلیاں ضرور کرنی چاہئیں لیکن انہیں قواعد و ضوابط کے مطابق ہونا چاہیے۔ شاید ایک ایسی کمیٹی قائم کی جاسکتی ہے جو حکومتی محکموں کے کام کاج کو متاثر کیے بنا، با آسانی اس طرح کے تنازعات نمٹا سکے۔