پاک امریکا اسٹریٹیجک مذاکرات فروری میں شروع ہوں گے: سرتاج عزیز
اسلام آباد: پاکستان اور امریکا کے درمیان اسٹریٹیجک مذاکرات جو 2010ء میں معطل ہوگئے تھے، افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلاء کے نتیجے میں خطے میں 2014ء کے بعد سامنے آنے والی متوقع صورتحال کی روشنی میں فروری کے مہینے میں دوبارہ شروع ہوجائیں گے۔
کل سینیٹ میں وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے وزیراعظم کے دورۂ امریکا، ڈرون حملے اور اگلے سال افغانستان میں افواج کی تعداد میں متوقع کمی کے بالواسطہ اثرات کے حوالے کے ساتھ خارجہ پالیسی پر ایک بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ بیان دیا۔
انہوں نے کہا کہ چھ ورکنگ گروپس میں سے چار کے لیے طے کیا گیا تھا کہ وہ اسٹریٹیجک مذاکرات کے آغاز سے قبل میٹنگ کریں گے، اور وہ پہلے ہی یہ میٹنگ کرچکے ہیں۔
یہ مذاکرات ریمنڈ ڈیوس کے معاملے، سلالہ فوجی چوکی اور ایبٹ آباد میں امریکی چھاپہ مار کارروائی کے بعد سے معطل ہوگئے تھے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت نے ڈرون حملوں پر ایک واضح مؤقف اختیار کیا ہے اور امریکا کو پاکستانی قوم کی تشویش سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے ایوان کو بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران طاقت کے استعمال کے حوالے سے ایک قرارداد اپنانے سے ڈرون حملوں پر پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ”پُرامن پڑوس“ خارجہ پالیسی کی پہلی ترجیح ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم نواز شریف اور صدر حامد کرزئی کے درمیان تین ملاقاتوں کے بعد افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات میں نمایاں طور پر کمی آچکی ہے اور ایک نیا بارڈر مینجمنٹ سسٹم تیار کیا جارہا ہے، جو پاکستان اور افغان سرحد پر نقل و حرکت پر نظر رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستانی وزیراعظم منموہن سنگھ نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ان کے ملک میں انتخابات پاکستان مخالف بیانات کی بنیاد پر لڑے نہیں جانے چاہئیں۔ انہوں امید ظاہر کی کہ ہندوستان کے ساتھ امن عمل انتخابات کے بعد جلد ہی بحال ہوجائے گا۔ سرتاج عزیز نے ایوان کو یقین دہانی کرائی کہ نئی قومی سلامتی کی پالیسی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کردی جائے گی۔
انہوں نے اس تاثر کو رد کردیا کہ وزیراعظم سمیت پانچ افراد وزارت خارجہ کو چلا رہے ہیں اور انہوں نے کہا کہ تمام اختیارات ایک وفاقی وزیر کے پاس ہے۔
دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس عمل کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کی تھی، لیکن ان کی معلومات کے مطابق یہ عمل متاثر کردیا گیا تھا اور اب آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ انہوں نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکومت کی پالیسی کیا ہے، ان کے مطابق یہ وزارت داخلہ کا معاملہ ہے۔
اس سے قبل گردشی قرضوں اور انٹرنیشنل مانیٹیری فنڈ (آئی ایم ایف) کے بارے میں ایک پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے ادائیگی کرکے چودہ فیصد سود کی رقم بچالی ہے جو آئی پیز (انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز) اور پچھلی حکومت کی جانب سے چھوڑے گئے دیگر پانچ سو ارب روپے کے گردشی قرضوں کی تاخیر سے کی وجہ سے ادا کیا جارہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ گردشی قرضوں کی ادائیگی کے بعد سترہ سو میگاواٹ کی بجلی قومی گرڈ میں شامل کی جاچکی ہے۔ انہوں نے حزب اختلاف کی حکومت کی اقتصادی پالیسوں پر نکتہ چینی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ چیزوں کو بہتر بنانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اور گردشی قرضوں کی ادائیگی کے بارے میں تفصیلی معلومات وزارت خزانہ کی باضابطہ ویب سائٹ پر شایع کردی گئی ہیں۔
اسحاق ڈار نے ایوانِ بالا کو مطلع کیا کہ حکومت نے چونتیس میں سے بتیس ڈیپارٹمنٹس کے خفیہ فنڈز ختم کردیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نون کی حکومت پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت کے چھوڑے ہوئے گند کو صاف کررہی ہے۔
اسحاق ڈار کے بیان کے ردّعمل میں سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیرِ خزانہ نے اپنے تقریر میں حال ہی میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کو نظرانداز کردیا اور انہوں نے ان کو چیلنج کیا کہ وہ ایک عام آدمی کے دس ہزار ماہانہ کی تنخوا کا بجٹ بنا کر دکھائیں۔
انہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت ناقص کارکردگی کے دعوے کو رد کرتے ہوئے اسحاق ڈار کو مخاطب کرکے کہا کہ ”جو شخص ایک عام آدمی کا بجٹ نہیں بناسکتا، وہ کس طرح اٹھارہ کروڑ لوگوں کا بجٹ بنا سکے گا۔“
ایک پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے طاہر مشہدی نے ایوان کی توجہ دو چینی نیوکلیئر پاور پلانٹ کے بارے میں رپورٹوں کی جانب مبذول کروائی، جنہیں کراچی میں لگایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ یہ نیوکلیئر پاور پلانٹس جنہیں ”اے ایس پی 1000“ کہا جاتا ہے، ان کی اب تک آزمائش نہیں کی گئی ہے اور پہلی مرتبہ ان کا تجربہ کیا جارہا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان پاور پلانٹس کو شہر سے باہر اور آبادی سے دور نصب کیا جائے تاکہ کسی بھی تابکاری اور پانی کی آلودگی کے کسی بھی حادثے سے محفوظ رہا جاسکے۔