شیطانی چکر
گردشی قرضوں پر یہ بات صادق آتی ہے: حصار توڑنے کے لیے اوزار کی تلاش میں دائرے کے گرد گول گول گھومتے جاؤ۔
یہ ابھی کی بات ہے کہ بجلی تیار کرنے والی پبلک اور پرائیوٹ کمپنیز اور انہیں تیل فراہم کرنے والوں کے، برسوں کی عدم ادائیگی کے باعث ڈھیر لگے واجبات ادا ہونے کی 'کامیابی' پر سرکاری حکام ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے لیکن اب ایک بار پھر، وہ خود کو گردشی قرضوں (سوکولر ڈیبٹ) کے بُلند ہوتے پہاڑ کے سامنے کھڑا پاتے ہیں۔
پاور کمپنیز کے واجبات ایک بار پھر دو سو سولہ ارب کو پہنچ گئے، جو نواز شریف حکومت کی طرف سے اقتدار کے پہلے ماہ میں، یکمشت ادا کردہ چار سو اسّی ارب روپے کا پینتالیس فیصد ہے۔
جانے والی حکومتوں کے چھوڑے گئے گردشی قرضوں کی مکمل ادائیگی کو، حکومت اپنی پالیسی کی ایک بڑی کامیابی قرار دیتی چلی آئی ہے۔ اب حکومتی حلقوں میں کوئی ایسا نہیں ملتا جو اُن قرضوں کے اتنی جلد، ایک بار پھر بڑھنے کی وجوہات بتاسکے، جس کا حساب صرف چند ماہ قبل ہی بے باق کیا گیا تھا۔
جب حکومت نے گردشی قرضوں کی صورت میں پاور کمپنیز کے واجبات کی یکمشت ادائیگی کا اعلان کیا تو اس کا دعویٰ تھا کہ یہ ملک کے منہدم ہوتے پاور سیکٹر کی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کے اصلاحاتی عمل کا ایک حصہ ہے، بہرحال جلد ہی یہ عیاں ہوگیا کہ ان کے پاس سِرے سے ایسا کوئی منصوبہ ہی نہیں۔
اگرچہ حکمراں پاکستان مسلم لیگ ۔ نون نے مئی کے عام انتخابات جیتنے کے فوراً بعد ہی اس پر کام شروع کردیا تھا تاہم نام نہاد انرجی پالیسی نہایت تاخیر سے سامنے لائی گئی۔
بجٹ پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے کے لیے زیادہ تر صارفین کے بجلی نرخوں میں واضح اضافے کے علاوہ، اب یہ لگتا ہے کہ بجلی کی تقسیم کے دوران ہونے والے نقصانات میں کمی، بجلی چوری روکنے، عوامی شعبے میں بجلی پیدا کرنے کے عمل کی تنظیم نو اور ڈسٹری بیوشنز کمپنی وغیرہ کے واسطے، سخت اصلاحات کی ضرورت کو یکسر بھول چکے ہیں۔
یہاں، جینکوز اور ڈسکوز کی نجکاری کے واسطے بھی بہت کم حرکت دیکھی گئی ہے۔
ماہرین اور پرائیوٹ پاور پروڈیوسرز، جنہیں گردشی قرضوں کا حساب بے باق کرنے کے حکومتی فیصلے سے بنیادی فائدہ پہنچا تھا، کے بار بار خبردار کیے جانے کے باوجود، صورتِ حال یہ ہے۔
انہوں نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ صرف گردشی قرضوں کو ایک بار ختم کردینے سے، ملک کے پاور سیکٹر کی پرانی مشکلات دور نہیں کی جاسکتی ہیں۔
ایک بار پھر، پاور کمپنیز کے بڑھتے واجبات کی وجہ صرف انرجی سیکٹر میں اصلاحات کا فقدان ہی نہیں، یہ معاملہ حکومت کے کیش فلو مسئلے سے بھی جُڑا ہے۔ حکومت میں اس کی اہلیت ہی نہیں کہ وہ پاور کمپنیز کو مکمل ادائیگی کے بعد، آئی ایم ایف کے چھ اعشاریہ چھ ارب ڈالر قرض کے تحت طے کردہ حد کے اندر، بجٹ خسارہ محدود رکھ سکے۔
جب تک حکومت پاور سیکٹر کی تشکیلِ نو اورآمدنی میں اضافے کی خاطر ٹیکس دائرہ بڑھانے کے لیے، ساتھ ساتھ کام نہیں کرتی، تب تک یہ، گردشی قرضوں کے بے قابو جن کو واپس بوتل میں بند کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔