پرانے زمانے کی بستیاں جہاں مٹی سے بنی اور بھٹی میں پکی چوڑیوں کے مقابلے سنکھ سے چوڑیاں بنانا نہ صرف انتہائی مشکل تھا بلکہ انہیں بنانے کے لیے زیادہ صبر، سکون اور ذہانت کی سخت ضرورت تھی۔
اگر آپ منگھو پیر کی پہاڑیوں پر کھڑے ہیں تو آپ کو جنوب مشرق کی طرف ملیر میں نیل بازار کے قریب ایک قدیم بستی دکھائی دے گی جسے ’الھڈنو‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے
لاکھوں یا ہزاروں برس پہلے کے انسانوں کے ملنے والے فوسلز سے پتا چلتا ہے قدیم انسان کبھی بھی قحط یا خوراک کی کمی کا شکار نہیں رہا کیونکہ اُن کے پاس خوراک کی تلاش کے سوا اور کوئی دوسرا کام نہیں تھا۔
انسان کے ارتقائی سفر کے دوران سندھو گھاٹی میں جہاں جہاں بستیاں اپنی معروضی حالت میں پنپ رہی تھیں، درحقیقت انجانے میں وہ آنے والے دنوں کے لیے ایک تہذیب کی تخلیق کررہی تھیں۔
ہمارا آج کا سفر سمندر کنارے اور ان پہاڑیوں کے جنگلات، آبشاروں، غاروں اور قدامت کی ان پگڈنڈیوں پر ہے جہاں سندھو گھاٹی کی قدیم تہذیب اور زرعی بستیاں آباد تھیں۔
قدیم بستیوں کی کھوج سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ نو حجری دور کی ثقافتی باقیات چمکیلے پتھر کے اوزاروں اور ہتھیاروں کی صورت میں وادی لیاری اور دریائے حب تک کے وسیع علاقوں میں باکثرت ملے ہیں۔
کچھ بستیوں میں سہنے کی بڑی طاقت ہوتی ہے، وہ وقت کے آگے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکتیں۔ ایسی بستیاں ان تخموں کی طرح ہوتی ہیں جو تاحیات اپنے وجود میں جنم دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
افغان سرکار کے لیے سندھ کے نئے حاکم کا پروانہ جاری کرنا ایک تماشا تھا۔ کوئی بھی حاکم ہو لیکن اُس کے خزانے میں خزانہ آتا رہے اور جو زیادہ دے گا پروانہ اُس کے نام کا نکلے گا۔