پی ٹی آئی کا ایک بار پھر 9 مئی، 26 نومبر کے پرتشدد واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ملک میں سیاسی استحکام اور ترقی کے لیے مذاکرات کو ضروری قرار دیتے ہوئے 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 نومبر کے پر تشدد واقعات پرفوری جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر، سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور علی محمد خان سمیت دیگر سینئر رہنماؤں نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی ملک میں سیاسی استحکام اور ملکی ترقی کے لیے بات چیت کے لیے تیار ہے، ملکی ترقی کے لیے مذاکرات سے ہی مسائل کا حل نکلے گا، بانی تحریک انصاف چاہتے ہیں کہ ملک آگے چلے اور ترقی کرے۔
اعلامیے کے مطابق پارلیمانی پارٹی اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ تحریک انصاف کے ایم این ایز اور ایم پی ایز پر دباؤ ڈالنا بند کیا جائے، اس دوران اراکین پر دباؤ اور چھاپوں کا سلسلہ جاری رہنے پر ایوان میں بھرپور احتجاج کا فیصلہ کیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق پارلیمانی پارٹی نے 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے پر تشدد واقعات پر فوری جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے اور بانی پی ٹی آئی عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ 9 مئی 2023 کو القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں 9 مئی کو مسلم لیگ (ن) کے دفتر کو جلانے کے علاوہ فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جب کہ اس دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے تھے۔
مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے اور راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو)کا ایک گیٹ بھی توڑ دیا تھا۔
اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث 1900 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے 24 نومبر کو بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔
اس کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا کے علاوہ سردار لطیف کھوسہ نے فورسز کے اہلکاروں کی ’مبینہ‘ فائرنگ سے ’متعدد ہلاکتوں‘ کا دعویٰ کیا تھا، تاہم وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے ان دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہے تو ’ثبوت کہاں ہیں؟‘