پاکستان

’عمران خان جیل میں سہولیات کا غلط استعمال کرکے کارکنوں کو اکسا رہے ہیں‘

عمران خان ’عدالتی احکامات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ جیل مینوئل کی خلاف ورزی کر رہے تھے، ایف آئی آر میں الزام

وفاقی دارالحکومت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کو جیل میں غیر معمولی سہولیات فراہم کی گئیں ہیں جس کے باعث وہ گزشتہ تین دنوں کے دوران ’پارٹی کارکنوں کو ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف فسادات اور تشدد پر اکسانے‘ میں کامیاب رہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حسن ابدال پولیس نے پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان سمیت 63 دیگر پارٹی رہنماؤں اور 3 ہزار سے زائد کارکنوں کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج کے دوران پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے بعد بغاوت، دہشت گردی اور اقدام قتل کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

اسلام آباد میں درج مقدمات میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ عمران خان ’عدالتی احکامات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ جیل مینوئل کی خلاف ورزی کر رہے تھے اور انہیں باہر کے لوگوں سے بات چیت کرنے اور لوگوں سے ملاقات کرنے کی اجازت دے کر غیر معمولی سہولیات فراہم کیں۔

مقدمہ کے متن کے مطابق بانی پی ٹی آئی اپنے کارکنوں کو ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف مسلسل اکسا رہے تھے، اس کے علاوہ پارٹی رہنماؤں کو ایک پرتشدد مارچ کی قیادت کرنے کے لیے کہہ رہے تھے، جس کا مقصد افراتفری اور انتشار پھیلانا تھا۔

ایف آئی آر میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ مظاہرین نے مبینہ طور پر پیٹرول بم پھینکے جب کہ پولیس پر پتھراؤ کے علاوہ فائرنگ بھی کی۔

مظاہرین کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ عمران خان اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے انہیں ڈی چوک پہنچنے اور سرکاری کاموں میں خلل ڈالنے کا حکم دیا ہے۔

ایف آئی آر میں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں عمر ایوب اور بیرسٹر محمد سیف نے اپنی اشتعال انگیز تقاریر سے مظاہرین کو اکسایا، اعظم سواتی نے فنڈنگ ​​فراہم کی اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے وفاقی دارالحکومت پر مارچ کے لیے اپنے صوبے کے عوامی وسائل فراہم کیے۔

ایف آئی آرز

پی ٹی آئی کے احتجاج اور تشدد سے متعلق اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں 13 مقدمات درج ہیں، جن میں سیکرٹریٹ، سی ٹی ڈی، رمنا، سنگجانی، گولڑہ، کراچی کمپنی، ترنول، سنبل، نون، انڈسٹریل ایریا، کوہسار اور آبپارہ تھانے شامل ہیں۔

حسن ابدال کے تازہ مقدمے میں عمران خان، عظمیٰ خان، علیمہ خان، علی امین گنڈا پور، عمر ایوب، شیخ وقاص اکرم، شوکت بسرا، زین قریشی، نعیم حیدر، اعظم سواتی، بیرسٹر سلمان اکرم راجا، ڈپٹی اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی صغریٰ بی بی، صوبائی وزیر عاقب خان، سابق وزیر زادہ، 11 ارکان صوبائی اسمبلی کے علاوہ 3 ہزار سے زائد کارکنان کے نام شامل ہیں۔

حسن ابدال پولیس نے پی ٹی آئی کے 64 رہنماؤں کے خلاف اقدام قتل اور اغوا کے علاوہ پاکستان پینل کوڈ کی 20 دیگر دفعات اور انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دو دفعات کا مقدمہ درج کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق، پی ٹی آئی رہنماؤں نے جیل میں عمران خان کے ساتھ ملاقاتیں کیں، جنہوں نے اسلام آباد کی طرف اپنے احتجاجی مارچ کے دوران انہیں ریاست کے خلاف تشدد کرنے، قانون کو ہاتھ میں لینے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے پر اکسایا۔

الزام لگایا گیا کہ پی ٹی آئی کے حامیوں اور وزیراعلیٰ کے ہمراہ موجود مسلح لوگوں نے 26 پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا جب کہ آنسو گیس بندوقوں اور لاٹھیوں سے لیس مظاہرین نے دفعہ 144 نافذ ہونے کی اطلاع کے باوجود منتشر ہونے سے انکار کردیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس سے تعاون کرنے کے بجائے رکاوٹیں ہٹائیں اور پولیس پر حملہ کیا، مظاہرین کے تشدد سے 26 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، انہیں حسن ابدال اور اٹک کے ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا۔

دوسری جانب اٹک پولیس نے پشاور، اسلام آباد موٹروے کے علاقے ہارو پل اور کٹی پہاڑی سے حراست میں لیے گئے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو راولپنڈی منتقل کر دیا ہے جہاں انہیں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے وارنٹ گرفتاری جاری

پیر کو اے ٹی سی کے جج طاہر عباس سپرا نے کے پی کے وزیراعلیٰ گنڈا پور اور پی ٹی آئی کے مقامی رہنما عامر مسعود مغل کے کیس کی سماعت کے دوران پیش نہ ہونے پر ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے۔

جج نے کوہسار پولیس کو ڈی چوک تشدد کے سلسلے میں عمران خان کی بہنوں علیمہ اور عظمیٰ کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ بھی منظور کیا اور اسد قیصر کے بھائی عدنان خان کے جسمانی ریمانڈ میں 7 دن کی توسیع کردی۔

قبل ازیں سماعت میں پی ٹی آئی کے وکیل نیاز اللہ خان نیازی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے عمران کی بہنوں کو 4 اکتوبر کو گرفتار کیا تھا، جب انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تو دو دن کے وقفے کے بعد ایف آئی آر کی کاپی فراہم کی، اس لیے گرفتاری خود ہی غیر قانونی ہو جاتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 نعرے لگانے پر لگائی گئی، تاہم جج نے ایک دن کا ریمانڈ منظور کیا جب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ریمانڈ کسی ریکوری کے لیے نہیں بلکہ ’پوچھ گچھ‘ کے لیے مانگا جارہا ہے۔

بعد ازاں، جج سپرا نے ہنگامہ آرائی کیس میں پی ٹی آئی رہنما اعظم خان سواتی کو 3 دن اور کے پی اسمبلی کے اراکین اسمبلی انور زیب اور ملک لیاقت کو 7 دن کے لیے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

پی ٹی آئی احتجاج: جڑواں شہروں میں معمولات زندگی، موبائل فون سروسز بحال

پی ٹی آئی کا عمران خان کی ہدایات ملنے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان

اسلام آباد، لاہور میں احتجاج اور جھڑپیں، عمران خان سمیت متعدد رہنماؤں کیخلاف مقدمات درج