شام میں غیر ملکیوں کے گلے کاٹنے والا 'برطانوی شہری'
واشنگٹن، لندن: شام میں غیر ملک شہریوں کو ذبح کرنے والے داعش کے انتہا پسند کا برطانوی شہری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
واضح رہے کہ اگست 2014 میں داعش نے امریکی صحافی جیمز فولے کا سر قلم کیا تھا اس موقع پر ایک نوجوان انگریزی میں مغربی ممالک کو دھمکیاں دیتا ہوا نظر آتا ہے، اس وقت اس کی شناخت سامنے نہیں آئی تھی، مگر اب امریکی حکام نے اس کی تصدیق کی ہے کہ یہ انگلینڈ کا رہائشی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : داعش کے ہاتھوں ایک اور امریکی صحافی قتل
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی خفیہ اداروں نے اب تصدیق کی ہے کہ داعش کا یہ شدت پسند برطانوی نوجوان محمد ایموازی ہے جس کی عمر 26 سال ہے جبکہ یہ انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، جس نے کمپیوٹر پروامنگ میں اعلیٰ تعلیم انگلینڈ کی یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر سے حاصل کی ہے۔
محمد ایموازی کو "جہادی جان" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
جہادی جان کی پیدائش کویت میں ہوئی تھی جبکہ ان کی پرورش لندن میں ہوئی۔
محمد ایموازی کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی ایموازی میں کسی قسم کے انتہا پسندانہ خیالات نہیں دیکھے تھے ۔
انسانی حقوق کی تنظیم کیج (CAGE) کے سربراہ عاصم قریشی کے مطابق برطانیہ کے خفیہ اداروں کی پالیسیوں کے باعث نوجوان شدت پسندی کی جان راغب ہوتے ہیں۔
عاصم قریشی نے بتایا کہ ایموازی بھی ایک اچھا نوجوان تھا اب اس کو تسلیم کرنا ایک مشکل امر بن گیا ہے کیونکہ اس کو ہم اس طرح نہیں جانتے تھے۔
ایموازی کے دوستوں کے مطابق اس نے 2009 میں تنزانیہ کا دورہ کیا تھا یہ تفریحی دورہ اس کے والدین کی جانب سے تعلیم مکمل کرنے کا تحفہ تھا، مگر اس کو ایک رات حراست میں رکھا گیا اور واپس برطانیہ بھیج دیا گیا، کیونکہ حکام کا دعویٰ تھا کہ وہ تنزانیہ سے صومالیہ جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایموازی کو 2010 میں برطانیہ کی انسداد دہشت گردی کی فورس نے ایک بار پھر حراست میں لیا اور تفتیش کی۔
خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کے دو سال بعد 2012 میں جان جہادی نے شام کا سفر کیا اور داعش میں شامل ہو گیا۔
ایموازی کے دوستوں کا کہنا ہے کہ ایموازی کو اس مقام تک پہنچانے میں برطانوی اداروں کا ہاتھ ہے۔
کیچ کے سربراہ عاصم صدیقی کے مطابق برطانیہ کی گزشتہ 13 سال سے پالیسی نے لوگوں کو تنہائی اور علیحدہ ہونے پر مجبور کر دیا ہے وہ سوچتے ہیں کہ ان کا شاید برطانوی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
واضح رہے کہ محمد ایموازی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کویت منتقل ہونا چاہتے تھے جہاں ان کے والدین ہیں وہاں وہ اپنی ازدواجی زندگی کے ساتھ ساتھ پروفیشن کا آغاز کرنے کے خواہشمند تھے