پاکستان

'بلدیہ ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی کی غیرملکی تحقیقات کروائی جائیں'

الطاف حسین نے پاک فوج کے سربراہ پر زور دیا کہ وہ جماعت اسلامی، پی ٹی آئی یا ایسی تفتیشی رپورٹ پر بھروسہ نہ کریں۔

حیدرآباد، کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے مطالبہ کیا ہے کہ 2012ء میں ہونے والے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی آتشزدگی کے واقعے کی غیرملکی تفتیش کاروں کے ذریعے تحقیقات کروائی جائیں۔

انہوں نے یہ مطالبہ رینجرز کی جانب سے ایک ملزم کے اعترافی بیان کی بنیاد پر پیش کی جانے والی رپورٹ کے ردّعمل میں کیا ہے، جس میں اس واقعہ میں ہونے والی ہلاکتوں کا الزام ان کی پارٹی پر عائد کیا گیا تھا۔

الطاف حسین یونیورسٹی کے سنگِ بنیاد رکھے جانے کی خوشی میں لطیف آباد کے باغِ مصطفٰے گراؤنڈ میں منعقدہ ایک تقریب میں شریک اپنی پارٹی کے رہنماؤں، کارکنان اور حمایتیوں سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سربراہ نے الزام عائد کیا کہ فوج، آئی ایس آئی، رینجرز، انٹیلی جنس بیورو، ایف آئی اے اور پولیس میں کچھ کالی بھیڑیں ہیں، جو قائداعظم محمد علی جناح، فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو کے قتل کی اور قصبہ اور علی گڑھ کے فسادات، پکا قلعہ آپریشن اور تیس ستمبر 1988ء میں حیدرآباد کی خونریزی میں ہونے والے قتل عام کی ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ اور دیگر سانحات کے ملزمان کو کبھی گرفتار نہیں کیا گیا۔

الطاف حسین نے کہا کہ ان کی پارٹی نے اپنی تقریبات کو شکارپور امام بارگاہ کے سانحے اور ایم کیو ایم کے کارکنان کے قتل کی وجہ سے ملتوی کردیا تھا، اور جب یہ تقریبات منانے کا اعلان کیا گیا تو جے آئی ٹی کی طرز کی چیزیں ابھر کر سامنے آگئیں۔

انہوں نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا حوالہ دیا، جس نے بلدیہ ٹاؤن کے سانحے کی تحقیقاتی رپورٹ تیار کی تھی۔

ایم کیو ایم کے سربراہ نے پرنٹ میڈیا میں شایع ہونے والی جے آئی ٹی رپورٹ کی سرخیوں پر تنقید کی اور کہا کہ بعض ٹی وی چینلز نے اس پر خوشیاں منائیں اور ان کی پارٹی کے مخالفین جنہیں اسٹیبلشمنٹ میں موجود کچھ عناصر کی حمایت حاصل ہے، نے اپنی تمام توپوں کارُخ ایم کیو ایم کی جانب کردیا۔

ایم کیو ایم کے سربراہ نے مطالبہ کیا کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی آتشزدگی کے واقعہ کی تحقیقات غیرملکی تفتیش کاروں کو طلب کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس میں ایم کیو ایم کے لوگ اس میں ملؤث ہیں تو ان کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جانی چاہیے اور ان کو پھانسی پر لٹکانا چاہیے۔

متحدہ کے قائد نے سوال کیا کہ آخر رضوان قریشی کو پہلے گرفتار کرنے کے بعد کیوں رہا کردیا گیا تھا اور اس کو بعد میں کیوں گرفتار کیا گیا۔

واضح رہے کہ رضوان قریشی ایم کیو ایم کا مبینہ کارکن ہے، جس نے بائیس جون 2013ء کو مشترکہ تحقیقات کے دوران فیکٹری کی آتشزدگی کی معلومات کا انکشاف کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آخر جے آئی ٹی رپورٹ پہلے کیوں جاری نہیں کی گئی اور فیکٹری کے مالکان کے کیا بیانات ہیں، کیوں ان کو پہلے پیش نہیں کیا گیا؟

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر، آئی بی اور ایف آئی اے کے سربراہان اور سندھ کے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرز کی رپورٹ کی وجہ سے ملک کا نصف حصہ کھودیا گیا تھا، اور انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم نے اپنی اصلاح نہیں کی تو پھر خدا نہ کرے باقی نصف بھی ہم کھو دیں گے۔

انہوں نے جے آئی ٹی کو ’’مشترکہ تحقیقاتی عامیانہ ٹیم‘‘ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ چھوٹے اور عامیانہ طرز کے اخبارات میں شایع ہونے والے مرچ مسالے سے بھرپور رپورٹوں کی طرز پر تیار کی گئی ہے۔

الطاف حسین نے کہا کہ کچھ اینکرپرسنز بلاوجہ ایم کیو ایم کو بدنام کر رہے ہیں۔ اگر ایک فرد کسی جرم کا اعتراف کرتا ہے تو یہ اس کا اپنا عمل ہے اور اس کے لیے اس کی پارٹی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

متحدہ کے قائد نے ایم کیو ایم لیگل ایڈکمیٹی کو ہدایت کی کہ وہ اس طرح کی رپورٹیں تیار کرنے والے ذمہ داروں کے خلاف مقدمات دائر کرے۔

ایم کیو ایم کے سربراہ نے کہا کہ انہیں حیرت ہے کہ کیا بے نظیر بھٹوقتل کیس اسکاٹ لینڈیارڈ اور اقوامِ متحدہ کے تفتیش کاروں کے ذریعے حل ہوگیا تھا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ راولپنڈی کے اوجڑی کیمپ دھماکے کی تحقیقات کے لیے کوئی جے آئی ٹی تشکیل نہیں دی گئی اور سی ون تھرٹی طیارے کے حادثے کی کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں، جس میں جنرل ضیاء الحق اور اعلیٰ سطح کے جنرل ہلاک ہوگئے تھے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ہزاروں لوگوں کے قتل کے ذمہ دار دہشت گرد جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے گھروں سے گرفتار کیے گئے تھے۔

الطاف حسین نے اینکرپرسنز سے کہا کہ وہ جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر ایم کیو ایم کو بدنام کرنے سے باز رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی پارٹی کے کارکنان سے ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ’’لیکن اگر اینکر پرسنز نے ایم کیو ایم پر الزامات اور بہتان تراشی کا سلسلہ جاری رکھا تو پھر ایم کیوایم نہیں بلکیہ نتائج کے لیے خود ذمہ دار ہوں گے۔‘‘

بارہ مئی 2007ء کے واقعے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کی بحالی کے لیے ایم کیو ایم نے ایک ریلی کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں پارٹی کی خواتین کارکنان نے اپنے بچوں کے ہمراہ شرکت کی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’آپ مجھے بتائیے کہ یہ سازش کہاں تیار کی گئی۔ یہ سازش آئی ایس آئی کے آفس میں تیار کی گئی اور جنرل نصرت کیانی جیسے کچھ عناصر اس کا حصہ تھے۔ انہوں نے اے این پی کے صدر سے کہا کہ جب یہ ریلی منعقد ہو تو اس کو نشانہ بنایا جائے۔‘‘

الطاف حسین نے الزام عائد کیا کہ جماعت اسلامی کے محمد حسین محنتی نے ایک اجلاس طلب کیا، جس میں مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے افراد کو مدعو کیا گیا، انہیں ہتھیار، رقم اور متحدہ قومی موومنٹ کے پرچم دیے گئے۔ ان سے کہا گیا کہ وہ متحدہ کی ریلی میں اس کے پرچم کے ساتھ داخل ہوں اور فائرنگ شروع کردیں۔

انہوں نے ان الزامات کو مسترد کردیا کہ 100 وکیل بارہ مئی 2007ء کو زندہ جل گئے تھے۔

متحدہ کے قائد نے جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے سربراہ پر زور دیا کہ وہ اس طرح کی تفتیش اور پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پر بھروسہ کرنے سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ طالبان، داعش اور پاکستان کے دشمن ہیں۔‘‘

جے آئی ٹی رپورٹ چیلنج:

اسی دوران ایم کیو ایم کے دیگر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔

کراچی میں پارٹی کے مرکز نائن زیرو پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، حیدر عباس رضوی اور ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ یہ ایک من گھڑت رپورٹ ہے، اور اس کا مقصد میڈیا ٹرائل کے ذریعے متحدہ کو بدنام کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ افواہ پر مبنی ہے اور اس کو عدالت میں جمع کرانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو بدنام کیا جائے۔

حیدر عباس رضوی نے دعویٰ کیا کہ نہ تو پولیس کی تفتیش اور نہ ہی ریٹائرڈ جسٹس زاہد قربان علوی کی جانب سے کی گئی انکوائری میں بلدیہ ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی میں دہشت گردی یا بھتہ خوری کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر جے آئی ٹی رپورٹ کو اس ہلاکت خیز آتش زدگی کے واقعے میں ایم کیو ایم ملؤث ملی تھی تو آخر کوئی ایف آئی آر یا چارج شیٹ ٹرائل کورٹ کو کیوں جمع نہیں کرائی گئی تھی۔

اتوار کی رات گئے منعقدہ ایک اور پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے اپنے سینئر کارکن رفیق راجپوت کی گرفتاری اور انہیں بارہ مئی 2007ء تشدد میں ملؤث کرنے کی شدید مذمت کی۔

ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان نے دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی کے چودہ کارکنوں کو اس دن ہلاک کیا گیا تھا، لیکن ایک بھی قاتل گرفتار نہیں کیا گیا۔