پاکستان

غیرفعال پٹرولیم کمپنیوں کے لائسنسوں کی منسوخی کا فیصلہ

الحاج انٹرپرائزز نامی کمپنی کو تیل و گیس کی تلاش کا لائسنس جاری کردیا گیا تھا، جو ٹینکروں کے ذریعے پٹرول سپلائی کرتی ہے۔

اسلام آباد: گیس کی قلت میں روزبروز اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے میں قصوروار پٹرولیم کی تلاش اور پیداواری کمپنیوں کے اردگر گھیرا تنگ کیا جائے، جو گیس اور تیل کی دریافت میں اپنے ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

وزارت پٹرولیم کے ایک سینئر عہدے دار نے ڈان کو بتایا کہ ایسی کمپنیاں جو قواعدوضوابط کی تکمیل میں ناکام رہی تھیں اور انہوں نے گیس و پٹرول کی تلاش کا کام مقررہ وقت شروع کردیا تھا، اب انہیں معاہدے کی خلاف ورزی کا تدارک کرنے کے نوٹسز جاری کیے جارہے ہیں، یا انہیں ممکنہ طور پر اپنے لائسنسوں کی منسوخی کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

مذکورہ عہدے دار نے کہا کہ وزارتِ پٹرولیم اس معاملے کا جائزہ لے رہی ہے کہ آخر کس طرح کچھ کمپنیاں حکومت کو دھوکہ دے کر لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں، جو کہ آئل اور گیس کی تلاش کا پچھلا کوئی تجربہ نہیں رکھتی تھیں یا ان کے پاس ایسی کوئی مہارت نہیں تھی۔

ایک سینئر عہدے دار کا کہنا ہے کہ پٹرولیم مراعات کے ڈائریکٹوریٹ جنرل نے الحاج انٹرپرائزز اور ٹالاہاسی ریسورسز آف کینیڈا نامی دو کمپنیوں کو نوٹسز جاری کیے ہیں، ان کمپنیوں نے پچھلے سال کی ابتداء میں لائسنس حاصل کرلیے تھے، لیکن تلاش کے کام یا اس کے لیے انتظامات کی تکمیل میں ناکام رہی تھیں۔

الحاج انٹرپرائزز کو جاری کیے گئے ایک نوٹس میں وزارتِ پٹرولیم کا کہنا ہے کہ اس کمپنی نے پچھلے سال فروری کے دوران خیبرپختونخوا میں پوٹوار ساؤتھ (بلاک 3271-6) کے لیے تلاش کا لائسنس لیا تھا، تاہم اس نے معاہدے کی تین بڑی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا۔

اس نوٹس کا کہنا ہے کہ اس کمپنی نے اپنی ٹیکنیکل ٹیم کی تفصیلات جانچ پڑتال کے لیے جمع نہیں کرائی ہے۔ اس کے علاوہ اس کمپنی نے ٹیکنیکل اور آپریٹنگ کمپنی کا اجلاس بھی منعقد نہیں کیا، جو کہ مشترکہ آپریٹنگ معاہدے کے آرٹیکل 4.1 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

مذکورہ نوٹس کا کہنا ہے کہ کمپنی پٹرولیم کے مراعاتی معاہدے پر دستخط اور تلاش کے لیے لائسنس کے حصول کے فوراً بعد حکومت کو 2.5 فیصد کے ورکنگ انٹریسٹ کی پیشکش میں بھی ناکام رہی، جو کہ پاکستان آن شور پٹرولیم رولز 2013ء کے قوانین کے تحت لازم ہے۔

نوٹس کا کہنا ہے کہ ’’لہٰذا یہ کمپنی معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کرتی پائی گئی۔‘‘

واضح رہے کہ الحاج گروپ اپنے ہزاروں ٹینکروں کے بیڑے کے ذریعے ملک میں اور افغانستان میں معروف تیل کی کمپنیوں کے لیے پٹرول کی مصنوعات کی نقل و حمل کا کام کرتا ہے۔اس کا تیل یا گیس کی دریافت و تلاش کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔

ایک کینیڈین کمپنی ٹالاہاسی ریسورسز نے بھی پاکستان میں نوّے دن کے اندر اندر ایک رجسٹرڈ برانچ آفس نہ کھول کر معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، جو کہ قانون کے تحت لازم ہے۔

اس کمپنی کو اگست 2014ء میں خیبر پختونخوا میں کرک نارتھ بلاک کے لیے 307 ورک یونٹ پر کام کے معاہدے کے ساتھ لائسنس دیا گیا تھا۔

ٹالا ہاسی نے بھی ٹی سی ایم/اوسی ایم کے اجلاس نہ منعقد کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور قانون کے تحت درکار اپنا 2.5 فیصد حصہ بھی حکومت پاکستان کو منتقل نہیں کیا۔

ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ حکومت پٹرول و گیس کی تلاش کے لائسنس کمپنیوں کو جاری نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے تیل و گیس کی تلاش کرنےوالی کمپنیوں کو مکمل سہولیات دی تھیں، لیکن اب وہ تاخیری حربے برداشت نہیں کرے گی اور غیرپیشہ ورانہ کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرکے زیادہ فعال کمپنیوں کو نئے لائسنس کی نیلامی کو ترجیح دے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک آسٹرین فرم جو پہلے ہی کرک کے علاقے میں کام کر رہی ہے، تلاش کے مزید بلاکس حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اس لیے کہ اس علاقے میں ہائیڈوکاربن کے ذخائر کے اچھے امکانات موجود ہیں۔

قانون کے تحت غیرملکی کمپنیاں پاکستان میں کام نہیں کرسکتیں، لیکن دنیا کے دیگر جغرافیائی علاقوں مراعات رکھنے والی کمپنیاں پٹرولیم کے حقوق حاصل کرنے کی اہل ہوں گی۔تاہم یہ ٹیکنیکل اور مالیاتی استعداد کی کارکردگی سے مشروط ہوگا۔