پاکستان

بے گھر افراد کے لیے بین الاقوامی امداد طلب

وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ صرف شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی کے لیے دو ارب ڈالرز درکار ہیں۔

اسلام آباد: حکومت نے سیلاب اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی وجہ سے تقریباً دس لاکھ بے گھر افراد کی بحالی کے لیے بین الاقوامی برادری سے مدد طلب کرلی ہے۔

جمعہ کے روز یہ اپیل وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے ایک ابتدائی ڈونر کانفرنس میں کی، جس میں غیر ملکی سفارتی مشن کے نمائندوں، امدادی ادارے، ترقیاتی شراکت داروں اور اقوامِ متحدہ کے اداروں نے شرکت کی۔

انہوں نے کہا کہ معروف بین الاقوامی اداروں کی جانب سے امداد اور نقصان کا ضروری تعین مکمل ہوجانے کے بعد اس مہینے کے آخر میں ایک باضابطہ ڈونر کانفرنس منعقد کی جائے گی۔

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی ردّعمل حوصلہ افزا ہے۔

وزیرِ خزانہ نے شرکاء کانفرنس کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ شمالی وزیرستان میں ایک انسدادِ دہشت گردی کی کارروائی جاری ہے، اور کہا کہ جس کی وجہ سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد اپنے گھروں سے بے دخل ہونے پر مجبور ہوگئی ہے، اور قبائلی علاقوں سے بے گھر ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ حالیہ سیلاب سے بھی پنجاب، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں لوگوں کی بڑی تعداد نقلِ مکانی پر مجبور ہوئی ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ صرف شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی اور دوبارہ آبادکاری کے لیے دو ارب ڈالرز درکار ہیں۔

بین الاقوامی برادری جبکہ بے گھر افراد کی بحالی کے کاموں حکومت کے ساتھ مل کر اپنے فرائض ادا کررہی تھی، انہوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے بھی مدد کا ہاتھ بڑھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ایک جائزے پر مبنی مختلف شعبوں کی ابتدائی تجزیاتی رپورٹ تیار کرلی گئی تھی۔

وزیرِ خزانہ نے خاص طور پر اس ضمن میں ایشیائی ترقیاتی بینک، جاپان انٹرنیشنل کوآپریٹنگ ایجنسی اور اقوامِ متحدہ کا شکریہ ادا کیا، جس نے امداد اور بحالی کے عمل میں شمولیت کی پیشکش کی تھی۔

حکومتِ پنجاب کے ایک نمائندے نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں کانفرنس کے شرکاء کو بریفنگ دی۔

انہوں نے کہا کہ یہ پچھلی پانچ دہائیوں کے دوران صوبے کا بدترین سیلاب تھا، جس کی وجہ سے تین ہزار چار سو پچاس دیہات تباہ اور پانچ لاکھ افراد بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پانی اترنے کے بعد ہی حقیقی نقصان کی بہتر تصویر سامنے آسکے گی۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کے سولہ ضلعوں میں پینتس ہزار متاثرہ افراد میں فی کس پچیس ہزار روپے تقسیم کردیے گئے ہیں۔ سیلاب میں ہلاکتوں کا معاوضہ فی کس سولہ لاکھ روپے کی شرح سے ادا کردیا گیا ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین میجر جنرل سعید عالم نے کہا کہ پنجاب میں 23 ڈسٹرکٹ، گلگت بلتستان میں پانچ، آزاد جموں و کشمیر میں دس ڈسٹرکٹ سیلاب کے پانی میں ڈوب گئے تھے، اور تقریباً چوبیس لاکھ ایکڑ زمین کو نقصان پہنچا تھا۔ املاک اور جانوں کا نقصان بہت بڑا تھا۔

سفارت کاروں اور امدادی اداروں کے نمائندوں نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔ چین کے سفیر نے کہا کہ ان کا ملک امداد کی پیشکش کرے گا، اور بحالی کے کاموں میں حصہ لینے کے لیے بے چین ہے۔

یوروپین یونین کے سفیر ڈاکٹر گریگوری گوٹلیب کا کہنا تھا کہ یہ بات پریشان کن ہے کہ پاکستان مسلسل پانچویں مرتبہ سیلاب سے متاثر ہوا ہے، اور یہ صورتحال مؤثر حفاظتی اقدامات کا تقاضہ کرتی ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ڈاکٹر وارنر لیپیچ نے کہا کہ بحالی کی سرگرمیوں کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنا چاہیے، جو مستقبل میں ایک ماڈل کے طور پر کام کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آپ کے ساتھ کام کرنے میں ہمیں بہت زیادہ دلچسپی ہے۔‘‘

عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر راشد بن مسعود نے کہا کہ ان کا ادارہ مدد کے لیے تیار ہے۔

امریکی امدادی مشن کے پاکستان میں ڈائریکٹر لارس گنر ویجمارک کا کہنا تھا ’’ہم ہمیشہ سے ہی بہت زیادہ مددگار رہے ہیں۔ عطیہ دہندگان کی توجہ مرکوز کرنے کے لیے اہم علاقوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔‘‘

ترکی کے سفیر صادق بابر گرگن نے بھی اپنے ملک کی جانب سے مدد کا یقین دلایا۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت امداد کی وصولی اور تقسیم کے لیے ایک شفاف اور جوابدہ طریقہ کار وضع کرنے کو یقینی بنائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ عطیہ دہندگان، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور سرکاری حکام پر مشتمل ایک نگران کمیٹی قائم کی جائے گی۔