کچرہ چننے والوں کی زندگی میں عارضی انقلاب
اسلام آباد: شاکر جان ان دنوں بہت خوش ہے، اس لیے کہ اسے اب صبح سویرے بیدار نہیں ہونا پڑتا۔
پشاور سے تعلق رکھنے والا یہ چودہ برس کا لڑکا پچھلے چار سالوں سے اپنے گھروالوں کے ساتھ اسلام آباد کے سیکٹر آئی-11 کی کچی آبادی میں مقیم ہے۔
شاکر جان نے بتایا ’’میرے لیے ضروری ہے کہ میں صبح سویرے بیدار ہوجاؤں، اس لیے کہ میں اپنے گھروالوں کی روزی کمانے کے لیے کچرہ چننے کا کام کرتا ہوں۔‘‘
اس کا مزید کہنا تھا کہ اس کے صبح سویرے بیدار ہوکر دارالحکومت کے مختلف سیکٹروں سے کچرہ جمع کرنا مشکل کام تھا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کہ دوسرے بچے سڑکوں پراسکول کی بسوں کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔
شاکر جان مختلف مقامات سے دن گیارہ بجے تک کچرہ اکھٹا کرتا ہے، جس سے اس کو بمشکل دو سو روپے حاصل ہوتے ہیں۔
تاہم جب سے پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے احتجاج شروع ہوا ہے، وہ باآسانی روزانہ تین سو سے چار سو روپے کمالیتا ہے۔
شاکر نے بتایا ’’میں تقریباً دس بجے اُٹھتا ہوں اور کچرہ اکھٹا کرنے ڈی چوک اپنی سائیکل پر پہنچ جاتا ہوں۔ تقریباً تین ہفتوں سے میں اپنا بیگ کچرے سے باآسانی بھر لیتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ یہ مظاہرین ڈی چوک پر ہمیشہ موجود رہیں، اس لیے کہ میرے لیے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے روزی کمانا آسان ہوگیا ہے۔‘‘
سیکٹر آئی-11 کی کچی آبادی کے رہائشی تیرہ برس کے بخت خان کا بھی یہی پیشہ ہے۔
بخت جان نے کہا ’’میرے ایک دوست نے مجھے بتایا، کہ میں اس کے ساتھ ریڈزون سے کچرہ اکھٹا کرنے چل سکتا ہوں۔ پچھلے چند دنوں سے میرے لیے ایک ہی جگہ سے بوتلیں، شاپنگ بیگز اور ڈبّے اکھٹا کرنا بہت آسان ہوگیا ہے، اس کی وجہ یہاں مظاہرین کی موجود گی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مظاہرین کی استعمال شدہ پینے کے پانی بوتلیں اور کھانے کے ڈبّے پھینک دیتے ہیں، اور اسکریپ کی دکان مالکان پلاسٹک کی بوتلیں خریدنا پسند کرتے ہیں۔
شاکر جان اور بخت جان کی طرح بارہ کہو کے بتیس سالہ وقاص خان کا کہنا تھا کہ وہ بھی اپنے گھروالوں کی روزی کمانے کے لیے کچرہ اکھٹا کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا ’’اس سے پہلے میں عام طور پر مختلف مقامات سے کچرہ اکھٹا کرنے کے لیے صبح سویرے بیدا ہوجاتا تھا۔ لیکن اب میں ڈی چوک پہنچتا ہوں اور کچرہ اکھٹا کرلیتا ہوں۔‘‘
وقاص خان نے کہا کہ یہ کچرہ چننے والوں کے لیے بہت اچھی بات ہے کہ کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کا عملہ ریڈ زون سے کچرہ نہیں اُٹھا رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا ’’میں یہاں سے روزانہ پانچ سو روپے کمارہا ہوں،جبکہ شہر میں دھرنوں کے آغاز سے پہلے تین سو روپے کمانا بھی مشکل تھا۔‘‘
کچرہ چننے والوں کے مطابق ریڈزون سے دو سو مزدور کچرہ اکھٹا کرتے ہیں، مظاہرین کی موجودگی کی وجہ سے انہیں اپنی روزی کمانا نسبتاً زیادہ آسان ہوگیا ہے۔