بے گھر افراد کے لیے 1.5 ارب روپے کے فنڈز کی درخواست
پشاور: شمالی وزیرستان ایجنسی سے نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے افراد (آئی ڈی پیز) کی ضروریات پوری کرنے کے لیے فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے وفاقی حکومت سے 1.5 ارب روپے فراہم کرنے کے لیے درخواست کی ہے۔
متعلقہ حکام کے مطابق بے گھر افراد میں نقد امداد کی تقسیم کے لیے اور اس ماہ کے دوران ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایف ڈی ایم اے کو فنڈز کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے شمالی وزیرستان سے نقلِ مکانی کرنے والے ہر خاندان کے لیے بارہ ہزار روپے ماہانہ امداد کی ادائیگی کا اعلان کیا تھا۔
لیکن صرف ایسے ہی خاندان نقد امداد حاصل کررہے ہیں، جن کے کیسز کی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے تصدیق کردی گئی ہے۔
اب تک نادرا نے پچپن ہزار ایک سو تراسی خاندانوں کی تصدیق کی ہے۔ جبکہ ایف ڈی ایم اے نے ابتداء میں کل پچانوے ہزار بے گھر خاندانوں کا اندارج کیا تھا۔
واضح رہے کہ 18 جون کو پاک فوج شمالی وزیرستان ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تھا، جس کی وجہ سے ہزاروں خاندان نقلِ مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔
ان بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) نے یا تو مقامی باشندوں کے پاس پناہ لے رکھی ہے، یا پھر کرائے کے مکانوں میں مقیم ہیں، جبکہ ان میں سے سات سو پچیس خاندان تصادم سے متاثرہ علاقے سے ملحق بکّا خیل میں کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اس کیمپ کا انتظام فوج کررہی ہے۔
متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ ایف ڈی ایم اے نے 27 اگست کو ریاست اور سرحدی علاقوں کی وزارت کے نام ایک خط ارسال کیا تھا، اور اس میں فوری طور پر1.5 ارب روپے جاری کرنے کی درخواست کی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ رقم بے گھر خاندانوں میں ماہانہ نقد امداد کی ادائیگی، انتظام و انصرام اور دیگر متعلقہ مقاصد کے لیے استعمال کی جائے گی۔
اس معاملے سے باخبر ایک اہلکار نے کہا کہ امکان تھا کہ اس درخواست کے بعد یہ فنڈز ایک ہفتے کے اندر اندر جاری کردیے جائیں گے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اگر وفاقی حکومت نے امداد کے اجراء میں تاخیر کی تو نقد امداد کے پروگرام کو معطل کیا جاسکتا ہے۔
حکومت ایک غیرملکی موبائل فون کمپنی کی جانب سے تقسیم کی گئی سم کارڈز کے ذریعے نقد رقم کی ادائیگی کر رہی ہے۔
صرف شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے (آئی ڈی پیز) اس نقد امداد کے حقدار قرار دیے گئے ہیں، جبکہ فاٹا کے دیگر حصوں سے نقل مکانی کرنے والے دس لاکھ سے زیادہ افراد اس طرح کی امداد حاصل کر رہے ہیں۔
ایک اہلکار نے کہا ’’شمالی وزیرستان سے نقل مکانی پر مجبور افراد کے لیے فنڈز کے اجراء میں تاخیر نہایت افسوس کی بات ہوگی، جنہیں ہنگامی صورتحال میں اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر آنا پڑا تھا۔‘‘
حال ہی میں ان بے گھر افراد نے اپنے مسائل پیش کرنے اور خصوصاً ناکافی امداد کی شکایت کے لیے ایک نیوز کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد یہاں کا دورہ کرنے پر وزیراعظم نواز شریف اور اعلٰی سطح کے سرکاری حکام نے جو وعدے کیے تھے، اس کے برعکس سلوک ان کے ساتھ کیا جارہا ہے۔
کچھ لوگوں نے شکایت کی تھی کہ ان کی شادی شدہ اولاد امداد حاصل کررہی تھی، لیکن وہ خود ضعیف العمر اور ایک علیحدہ خاندان ہونے کے باوجود ایک پیسہ بھی حاصل نہیں کرپائے ہیں، اس لیے کہ ان کے ایڈرسز یا ان کے شناختی کارڈز کے ساتھ کچھ مسائل کی وجہ سے ان کا سم کارڈ بلاک کردیا گیا تھا۔
ان بے گھر افراد نے اس بات کی شکایت بھی کہ ان کو اور خاص طور پر بچوں کے لیے فراہم کی جانی والی غذائی اشیاء انتہائی درجے کی غیر معیاری تھیں۔