پاکستان

پی ٹی آئی اور پی اے ٹی 80 سےزائد کارکنان گرفتار

پنجاب کے مختلف شہروں میں اسلام آباد کے مظاہرین پر مبینہ تشدد کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں۔

گوجرانوالہ: اتوار کے روز پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے لگ بھگ 70 کارکنوں کو اس ضلع کے مختلف حصوں سے گرفتار کرکے پولیس اسٹیشنوں میں منتقل کردیا گیا۔

اسلام آباد میں تشدد شروع ہونے کے بعد پولیس نے پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا اور ان کے دفاتر اور گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے۔

اسی دوران پی ٹی آئی کے کارکنان نے روالپنڈی کے بائی پاس پر دھرنا دیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔

کچھ دیر میں پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچ گئی، اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔ پی ٹی آئی کے ایک درجن سے زیادہ کارکنوں کو حراست میں لے کر پولیس اسٹیشن پہنچادیا گیا۔

اسلام آباد پولیس کے تشدد اور مبینہ ہلاکتوں کے خلاف سنی تحریک (ایس ٹی) نے بھی ایک ریلی نکالی۔ اس ریلی کے مظاہرین نے ایمان آباد گیٹ سے سیالکوٹی گیٹ تک مارچ کیا۔

سنی تحریک کے ضلعی صدر محمد اکرام بابر، حافظ طاہر رضا اور دیگر رہنماؤں نے اسلام آباد مارچ کے شرکاء پر پولیس کے مبینہ تشدد کی سختی کے ساتھ مذمت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکمران پولیس کو ذاتی ملازمین کی طرح استعمال کررہے ہیں اور اب تو انہوں نے تمام اخلاقی قدروں کو پامال کردیا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ حکومت اور مظاہرین تشدد سے گریز کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنا چاہیٔے۔

بہاولپور:

پی ٹی آئی، پی اے ٹی اور مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے کارکنان نے اسلام آباد میں پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں پر پولیس کی کارروائی کے خلاف بہاولپور اور لودھراں میں مشترکہ طور پر احتجاج کیا۔

یہاں سے تقریباً پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر چھمب کولیر کے قریب پی آئی ٹی، پی اے ٹی اور ایم ڈبلیو ایم کے سینکڑوں کارکنان نے بہاولپور ملتان ہائی کو بند کردیا۔

ان جماعتوں کے کارکنان نے دریائے ستلج پر ہائی وے کے پل کو بند کرنے کی کوشش کی، لیکن پولیس کی بھاری نفری نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا، اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکی دی۔

یہ کارکن پل پار کرکے چھمب کلیر ک قریب ہائی وے تک پہنچ گئے، جو لودھراں ڈسٹرکٹ کے دائرہ اختیار میں آتی ہے، جہاں پی ٹی آئی کے مقامی کارکنان بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔

انہوں نے پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے، جس پر حکومت کے خلاف نعرے اور وزیراعظم سے استعفے کے مطالبے درج تھے۔ پولیس کی بھاری نفری اس موقع پر کسی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے موجود تھی۔

اسی دوران اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں کے خلاف پولیس کی کارروائی کی مذمت کے لیے بہاولپور یونین آف جرنلسٹ نے پی ایف یو جے کی کال پر فوّارہ چوک پر مظاہرہ کیا۔

میانوالی:

پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنان نے ضلع کے مختلف حصوں میں ریلیاں نکالیں اور میانوالی سے بنوں جانے والی اور روالپنڈی جانے والی شاہراہوں پر ٹریفک معطل کردیا۔

یہاں سب سے بڑی ریلی پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے قمر مشانی پر نکالی گئی، جو مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی عبید اللہ شادی خیل کا آبائی علاقہ ہے۔

یاد رہے کہ عبیداللہ شادی خیل نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے خالی کردہ نشست سے کامیابی حاصل کی تھی۔

یکے بعد دیگرے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنوں نے داؤدخیل اور پاکی شاہ مردان سے بھی ریلیاں نکالیں، اور میانوالی سے کالاباغ جانے والی شاہراہ کو داؤدخیل کے قریب کئی گھنٹوں تک بلاک کیے رکھا۔

پی ٹی آئی کی ایک اور ریلی موسٰی خیل پر بھی نکالی گئی، اور کارکنان نے میانوالی سے راولپنڈی جانے والی شاہراہ ایک گھنٹے کے لیے بند کردیا۔

ان تمام ریلیوں کے ساتھ پولیس کی بھاری نفری موجود رہی۔

تمام ریلیوں کے شرکاء نے اسلام آباد میں حکمران جماعت کی کارروائی کی مذمت کی، جس کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد زخمی ہوگئی تھی۔

اوکاڑہ:

پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے درجنوں کارکنان نے اوکاڑہ پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا اور اس سے پہلے انہوں نے اسلام آباد میں اپنے ساتھیوں پر ربڑ کی گولیوں کی فائرنگ، آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے شہر کے بازاروں میں مارچ کیا اور ٹائر جلائے۔

تحریک انصاف کے ضلعی صدر چوہدری اظہر محمود، ایڈوکیٹ اسلم مغل، اسلم خان لودھی اور دیگر رہنماؤں کی قیادت میں اس ریلی نےشہر کے مختلف بازاروں میں مارچ کیا۔

انہوں نے اسلام آباد میں ربڑ کی گولیوں کی فائرنگ اور آنسوگیس کی شیلنگ کے خلا ف احتجاج کرتے ہوئے ٹائر جلائے، پولیس کی اس کارروائی کے نتیجے میں مبینہ طور پر چار سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔

کارکنان نے اس موقع پر ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے حق میں نعرے بھی لگائے۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ:

اتوار کو پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنان نے سندھیلیاں والی کے قریب فیصل آباد ملتان روڈ کو ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک بند کیے رکھا، وہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے سیاسی کارکنان کے خلاف اسلام آباد میں مبینہ حملے کی مذمت کررہے تھے۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پی اے ٹی کے ضلعی صدر غلام شبیر وڑائچ نے وزیراعظم نواز شریف اور وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے خلاف مقدمات درج کرنے کا مطالبہ کیا۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے ایک ریلی نکالی اور شہباز شریف چوک پر پہنچ کر عمران خان کے حق میں اور وزیراعظم اور وزیراعلٰی پنجاب کے خلاف نعرے لگائے۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے میڈیا کے نمائندوں پر مبینہ حملوں اور ان کے ساتھ نارواسلوک کے خلاف صحافیوں نے بھی پریس کلب کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا، اور جھنگ روڈ پر ایک ریلی نکالی۔ ان کی قیادت صدر منصور ناز نے کی۔

کمالیہ میں بھی صحافیوں نے پریس کلب کے صدر رانا امجد کی قیادت میں ایک ریلی نکالی۔ ہفتے کی رات اسلام آباد میں مختلف ٹی وی چینلوں کے کیمرہ مینوں اور رپورٹوں پر مبینہ لاٹھی چارج کے لیے انہوں نے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔

قصور :

پولیس نے ضلع میں پی ٹی آئی کے کارکنوں اور عہدے داروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کے گھروں پر چھاپے مارے اور پی ٹی آئی کے چودہ کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔

گرفتار ہونے والے کارکنوں میں سمیع اللہ، رضوان، محمد عارف، فاروق خان، عبدالعزیز، نثار احمد، راؤ افضال اور فیصل سعید شامل ہیں۔ انہیں گنڈاسنگھ، مصطفٰے آباد اور کوٹ رادھا کشن سے گرفتار کیا گیا۔

یہاں بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے ایک ریلی نکالی، انہوں نے وزیراعظم اور وزیراعلٰی کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔ پولیس کی ٹیموں نے بعد میں مظاہرین کے گھروں پر چھاپے مارے۔

پی ٹی آئی کے حمایتیوں کی ایک اور ریلی پارٹی کے سابق انتخابی امیدوار سردار فخر علی اور قیصر ایوب کی قیادت میں بلدیہ چوک سے نکالی گئی، جو لولینی اڈہ پر اختتام پذیر ہوئی۔ مظاہرین نے حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور وزیراعظم اور وزیرِ اعلٰی کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔

فیصل آباد:

پی ٹی آئی کے درجنوں کارکنان نے کچہری بازار، ڈی گراؤنڈ اور ستیانہ روڈ کے دکانداروں کو مجبور کیا کہ وہ اتوار کو اپنی دکانیں بند رکھیں۔

پارٹی پرچم اور لاٹھیاں اُٹھائے ہوئے ان مظاہرین نے کچہری چوک اور جھل خانوانہ چوک پر دو گھنٹے سے زیادہ عرصے تک ٹریفک معطل کیے رکھا۔

مظاہرین اسلام آباد میں دھرنے کے شرکاء کے خلاف طاقت کے استعمال پر حکومت کے خلاف نعرے لگارہے تھے۔ دکانداروں نے خوفزدہ ہوکر احتجاجی مظاہروں کے دوران اپنے کاروبار بند کردیے۔

اس موقع پر املاک کے کسی قسم کے نقصان کو روکنے کے لیے پولیس مسلسل چوکس تھی۔

پنجاب میڈیکل کالج کے کچھ طالبعلموں نے پی ایم سی چوک کے قریب سرگودھا روڈ بلاک کردیا۔