پاکستان

اسلام آباد کے شہری محاصرے میں

دارالحکومت میں آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی آمد کو روکنے کے لیے سڑکیں، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بند۔

اسلام آباد: دارالحکومت میں کنٹینر لگا کر راستے روکنے کا سلسلہ جاری تھا ، لیکن منگل کو شہری انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یومِ آزادی پر حزبِ مخالف کے دو لانگ مارچ کی آمد کو روکنے کے لیے شہر کو مکمل طور پر بند کردیا۔

گزشتہ ہفتے کے دوران چودہ اگست کو کیا ہوسکتا ہے؟ کے حوالے سے خدشات نے شہر میں کاروباری سرگرمیوں کو روک دیا تھا، ساتھ ہی بہت سے کمپنیوں نے اپنے ملازمین سے کہا تھا کہ وہ گھر پر رہیں۔

دارالحکومت آنے والی کاروں کو سڑکوں پر روک کر ایک اِک کرکے چیک کیا جارہا ہے، جبکہ دارالحکومت سے باہر جانے والی گاڑیوں کو بلا روک ٹوک جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

تاہم یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ جانے والوں کے لیے راستہ مکمل طور پر کھلا رہے گا یا پھر بند کردیا جائے گا۔

دارالحکومت کے اہم مقامات پر کنٹینر اور مٹی کے بڑے ڈھیر پہلے لائے جاچکے ہیں، اور توقع ہے کہ بدھ کی رات انہیں سڑکوں پر رکھ دیا جائے گا۔

اسلام آباد پولیس کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا کہ وہ کسی بھی قسم کی پریشانیوں کو کم کرنے کے لیے اپنی بہترین کوشش کررہے ہیں، جن کا اگلے چند دنوں میں شہریوں کو سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔


اگلے نوٹس تک سڑکیں کھلی ہیں


منگل کی شام اسلام آباد کے سینئر سپریٹنڈنٹ پولیس محمد علی نیکوکارا نے ڈان کو بتایا کہ شہر کی زیادہ تر سڑکیں ٹریفک کے لیے کھلی ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا ’’ہم نے احتیاطی تدبیر کے طور پر بعض مقامات پر کنٹینر رکھے ہیں، تاکہ خطرے کی صورت میں شہر کو بند کرنے کے لیے انہیں استعمال میں لایا جاسکے۔‘‘

سینئر سپریٹنڈنٹ پولیس نے کہا کہ ’’اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے، اور ضلعی حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی بھی احتجاج یا مظاہرہ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

مارگلہ روڈ جو بلو ایریا میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے پچھلے دھرنے کے دوران ٹریفک کے لیے کھلی رہی تھی، اسے بھی چودہ اگست کو ٹریفک کے لیے بند کیا جاسکتا ہے۔

ایس ایس پی محمد علی نیکوکارا نے کہا ’’2013ء کا 2014ء سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہر نئے دن کا اپنا چیلنج ہوتا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’لیکن ہم اس بات کو ہر ممکن طریقے سے یقینی بنائیں گے کہ اسلام آباد کے شہریوں کو سیکیورٹی انتظامات سے بہت زیادہ زحمت نہ اُٹھانی پڑے۔ یہاں تک کہ ریڈ زون بھی کھلا ہے اور اگر ضروری ہوا تو بندکیا جائے گا۔‘‘


موبائل سروس معطل


منگل کے روز پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ریڈزون جیسے مخصوص علاقوں میں موبائل فون کی سروس معطل کرنے کا حکام جاری کیا۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ترجمان خرم مہران نے کہا کہ ’’موبائل فون اور وائرلیس سروسز کی معطلی کی یہ ہدایات وزارت داخلہ سے منظور کردہ ہیں۔‘‘

اس نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’’نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) اور وزارتِ داخلہ کی جانب سے موصولہ ہدایات کی پیروی میں، میں موبائل فون، وائرلیس اور ڈیٹا سروسز کو 12 اگست 2014ء شام سات بجے سےآئندہ احکامات تک ایوان صدر اور کنونشن سینٹر اسلام آباد کے ریڈزون ایریا (یعنی یہ علاقہ مارگلہ روڈ سے شروع ہوکر کشمیر اور چائنا چوک سے قائداعظم یونیورسٹی تک پھیلا ہوا ہے)میں بند رکھنے کی درخواست کررہا ہوں۔ تاکہ یومِ آزادی پر کسی ناخوشگوار واقعے اور سیکیورٹی خطرات سے بچنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد ہوسکے۔‘‘

موبائل فون کمپنیوں یوفون اور ٹیلی نار کے نمائندوں نے تصدیق کی کہ حکومت نے کانسٹیٹیوشن ایونیو کے اردگرد کے انتہائی حساس علاقے میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کا حکم دیا تھا۔

ٹیلی نار کے اہلکار نے بتایا ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ان علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروسز کے ذریعے صارفین کی ای میلز اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس یا چیٹ ایپلیکشین تک رسائی نہیں ہوسکے گی۔‘‘

دونوں موبائل فون کمپنیوں کے اہلکاروں نے ان افواہوں کی تردید کی کہ دیگر علاقوں میں بھی یہ سروسز معطل کی گئی تھیں۔

پی ٹی اے کے ترجمان نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ شہر کے دیگر سیکٹر میں موبائل فون سروسز آئندہ احکامات تک کام کرتی رہیں گی۔


محصور ہونے کا خدشہ


آنے والے دنوں میں پٹرول پمپس بند رہنے کی قیاس آرائیوں کے بعد دارالحکومت پر پٹرول پمپس کی صورتحال نسبتاً بہتر ہے۔

اس کے علاوہ مارکیٹیں بھی کھلی ہوئی ہیں، اگرچہ محاصرے جیسی صورتحال کے خدشات کے پیش نظر سپر مارکیٹوں پر خریداروں کا ہجوم بڑھ گیا ہے، جو متوقع طویل دھرنے کی وجہ سے منجمد کھانوں اور دیگر گھریلو اشیاء کا ذخیرہ کررہے ہیں۔

ایف الیون مرکز میں ایک فروزن فوڈ آؤٹ لیٹ کے مینیجر نے ڈان کو بتایا کہ انوہں نے پورےدن کا اسٹاک دوپہر سے پہلے ہی فروخت کردیا تھا اور طلب پوری کرنے کے لیے فروزن چکن اور دیگر ایسی مصنوعات کے ایک اور بیچ کا آرڈر دے دیا تھا۔

بلو ایریا میں ایک اہم بینک کے ہیڈکوارٹر میں کام کرنے والے عقیل چوہدری نے ڈان کو بتایا کہ تمام غیر اہم اسٹاف کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر سے کام کریں، جبکہ اہم افراد جو کسی دوسری شاخ پہنچ سکتے ہیں، انہیں ان شاخوں میں کام کرنے کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا ’’جیسے ایک آئی ٹی مینیجر جو راولپنڈی میں رہتے ہیں، اپنے گھر کے قریب شاخ پر رپورٹ کریں گے، تاکہ بینک کے ضروری افعال مسلسل جاری رہیں۔‘‘

یورپین یونین کے ایک سفارتکار نے ڈان کو بتایا کہ ان کے مشن نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی نقل و حرکت کو سیکٹر ایف-6، ایف-7 اور ایف-8 تک محدود رکھیں۔

انہوں نے کہا ’’میں اپنے سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کی اجازت کے بغیر زیرو پوائنٹ سے آگے نہیں جاسکتا۔یہ دنیا کا اختتام نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ محفوظ رہنے کے لیے بہتر ہے۔‘‘

سیکٹر ایف-6 میں مقیم یوایس ایڈ کے لیے کام کرنے والے عمران نے ڈان کو بتایا کہ عملے کو گھر پر کام کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔

ایک مقامی موبائل فون کمپنی کے مینیجر نے ڈان کو بتایا کہ ان کی کمپنی نے 13 اگست اور 14 اگست کو چھٹی کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے کہا ’’ہمارے اعلٰی افسران کا کہنا ہے کہ وہ صورتحال کی نگرانی کریں گے اور یومِ آزادی پر سامنے آنے والی صورتحال کو دیکھنے کے بعد پندرہ اگست کو کام دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کریں گے۔‘‘

’’بہت سی چیزیں بدل گئیں، انہوں نے ایسا ہی رہنا ہے۔‘‘ ایک مشتعل کار سوار نے اپنے آگے گاڑیوں کی طویل قطار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، جن کی مارگلہ روڈپر قائم ایک چوکی پر چیکنگ کی جارہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’’مجھے یاد ہے کہ نواز شریف کے لانگ مارچ پر آصف علی زرداری کی حکومت نے راستہ روکنے کے لیے کنٹینرز استعمال کیے تھے۔ آج یہی حکمت عملی ان کی جانب سے عمران خان کے خلاف استعمال کی جارہی ہے۔‘‘

ڈاکٹر جاوید چشتی جو ایک ماہرِ ماحولیات اور پیدل چلنے کے حوالے سے کافی پرجوش ہیں، انہوں نے ڈان کو بتایا کہ وہ اکثر ٹریل فائیو پر چلتے ہیں، جو ریڈزون کے قریب سے شروع ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا ’’میں آئی-8 میں رہتا ہوں، اور مجھے یقین نہیں ہے کہ میں چودہ اگست کو ہائیکنگ کے لیے جاسکوں گا۔‘‘وہ کافی مایوس دکھائی دے رہے تھے۔

ایک اور ہائیکر نے کہا کہ ہائیکنگ ٹریل کے ساتھ ساتھ پہاڑیوں پر فوجی اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا ’’مجھے روک دیا گیا اور کہا گیا کہ شہریوں کو آگے جانے کی اجازت نہیں ہے، لہٰذا میں آدھے راستے سے ہی واپس آگیا۔‘‘