فنڈز کی کمی سے انسدادِ پولیو مہم میں رکاوٹ کا خطرہ
اسلام آباد: پولیو ویکسین کی خریداری کے لیے اسلامی ترقیاتی بینک اور جاپان سے قرضے کے حصول کے ایک پی سی ون کی تیاری کے تقریباً دو سال کے بعد بھی انسدادِ پولیو مہمات کے لیے انتظامی اخراجات کی منظوری نہیں دی جاسکی ہے۔
نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزارت کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ اس کے نتیجے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ انسدادِ پولیو مہم کا انعقاد مشکل ہوتا جارہا ہے۔
وفاقی وزیر برائے نیشنل ہیلتھ سروسز سائرہ افضل تارڑ نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس مہم کی آپریشن کے لاگت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ وہ پی سی ون کی منظوری کی کوشش کررہی تھیں، جو مختلف وجوہات کی وجہ سے نومبر 2012ء سے زیرِ التوا پڑا ہوا ہے۔
وزارت کے ایک اہلکار نے کہا کہ عالمی برادری نے تشویش کا اظہار کیا تھا کہ اس معذور کردینے والی بیماری کے خاتمے کے لیے پاکستان ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کررہا ہے، لہٰذا اس ریزرو فنڈ کو انسدادِ پولیو مہم میں استعمال کرنے کے لیے حکومت کو مجبور کیا جانا چاہیٔے، تاکہ اس کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوسکے۔
نومبر 2012ء میں سینٹرل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے اسلامی ترقیاتی بینک، جاپان اور دیگر اداروں سے بتیس کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالرز کے قرضے کے حصول کے ایک منصوبے کی منظوری دی تھی۔
مذکورہ اہلکار نے بتایا کہ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس قرضے کا سود ادا کرے گا۔
اسلامی ترقیاتی بینک نے ابتداء میں کچھ فنڈز جاری کیے تھے، لیکن اس کے بعد سے وہ پی سی ون کی منظوری کا انتظار کررہا ہے۔ جون 2013ء میں پی سی ون پر نظرثانی کی گئی تھی، تاہم وہ اب تک منظوری کا منتظر ہے۔
نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزارت کے اہلکار نے بتایا ’’پولیو کے خاتمے کے مقاصد کے تحت استعمال کے لیے اس قرضے کی رقم عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور یونیسیف کو اس بناء پر منتقل کردی گئی ہے کہ کوئی بھی اس قرضے کو حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔‘‘
دوسری جانب مستقبل میں فنڈز کی کمی سے پولیو ویکسین کی دستیابی ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔
یہ بات نوٹ کی جاسکتی ہے کہ ملک بھر میں پولیو ویکسین کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ پندرہ جولائی کو سندھ کے دیہی علاقے میں پولیو کا اس سال کا پہلا کیس رپورٹ کیا گیا تھا۔
چھبیس جولائی کو گزشتہ دو سالوں کے دوران بلوچستان میں پہلا پولیو کیس قلعہ عبداللہ سے رپورٹ کیا گیا تھا۔ جبکہ سات اگست کو پنجاب کا پہلا کیس ضلع چکوال کی تحصیل کلر کہار سے رپورٹ کیا گیا تھا۔
نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزارت کے اہلکار کا کہنا ہے کہ جب بھی پولیو کا ایک کیس کسی علاقے میں سامنے ہوتا تھا، اس کے جواب میں پولیو کے انسداد کی ایک ہنگامی مہم اردگرد کے علاقے میں منعقد کی جاتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’’سانگھڑ اور قلعہ عبداللہ میں انسدادِ پولیو کی ہنگامی مہم کا اعلان کیا گیا ہے، اور مقامی انتظامیہ ویکسین کا انتظار کررہی ہے۔ اس کے علاوہ شمالی وزیرستان سے نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے افراد کو ویکسین دی جارہی ہے۔‘‘
قلعہ عبداللہ کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز ڈاکٹر عبدالغفار بلوچ نے ڈان کو بتایا کہ ’’یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ 27 یونین کونسلوں میں انسدادِ پولیو مہم منعقد کی جائے گی، جہاں ایک لاکھ تیس ہزار بچوں کو ویکیسن پلائی جائے گی۔‘‘
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر سانگھر ڈاکٹر شگفتہ نسرین نے کہا کہ پولیو ویکسین کی ایک مہم اس علاقے کے پانچ کلومیٹر کے دائرے میں منعقد کی گئی تھی، جہاں سے پولیو کا کیس رپورٹ ہوا تھا۔
انہوں نے کہا ’’میں نے اٹھارہ اگست کو انسدادِ پولیو کی ایک ہنگامی مہم کا اعلان کیا ہے، اور امید ہے کہ پولیو ویکسین ہمیں وقت پر مل جائے گی۔‘‘
جب وفاقی وزیر سائرہ تارڑ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگرچہ ملک بھر میں پولیو ویکسین کی طلب میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس وقت ویکسین کی کمی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ پولیو مہم کے انعقاد کے اخراجات کا ایک مسئلہ ضرور تھا۔
انہوں نے کہا ’’بیرون ملک سفر کا ارادہ رکھنے والے افراد کو دینے کے لیے سعودی عرب نے پولیو ویکسین کی ایک کروڑ خوارکیں ہمیں فراہم کی ہیں۔‘‘
سائرہ تارڑ نے کہا ’’سندھ نے کراچی، حیدرآباد اور سانگھر میں انسدادِ پولیو مہم کے انعقاد کے لیے ویکسین طلب کی ہے، جو جلد ہی بھیج دی جائے گی۔‘‘
انہو ں نے مزید کہا صوبوں کے پاس ویکسین کے اپنے ذخائر موجود ہیں، اور انہیں انسدادِ پولیو کی ہنگامی مہمات کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان نے معیار کو یقینی بنانے کی تیکنیک کو اپنانے میں ناکام رہا تھا، اور اس ویکسین کے استعمال میں اس کو یقینی بنانا چاہیٔے۔
تاہم کلر کہار کا معاملہ اس سے مختلف تھا، جہاں پولیو سے متاثرہ بچے نے پولیو ویکسین کی سات خوراک لی تھی، لیکن ہوسکتا ہے کہ اس کے اندر قوت مدافعت میں کمی ہو۔
سائرہ تارڑ نے کہا کہ 2012ء میں یہ پی سی ون پلاننگ ڈویژن کو وزارتِ صحت کی رائے لیے بغیر پیش کیا گیا تھا۔ نتیجے میں پلاننگ ڈویژن نے اس پر ایک اعتراض اُٹھایا تھا۔لہٰذا نظرثانی شدہ پی سی ون وزارت کی رائے کے ساتھ جمع کرادیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا ’’پلاننگ ڈویژن نے دوبارہ اعتراض کیا اور کہا کہ اس کی مشترکہ مفادات کی کونسل سے منظوری لی جانی چاہیٔے تھی۔ لیکن وزارت نے کمیشن کو مطلع کیا کہ پولیو ایک وفاقی سطح کا معاملہ ہے، چنانچہ اس کو مشترکہ مفادات کی کونسل کی منظوری کی ضرورت نہیں۔‘‘
وفاقی وزیر نے کہا ’’میں نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے اس مسئلے کے حل کے لیے ذاتی طور پر بات کی تھی، اور مجھے یقین ہے کہ یہ پی سی ون اس مہینے میں منظور ہوجائے گا۔‘‘