پاکستان

ہم اب یہاں سے کہاں جائیں؟

شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے مسیحیوں نے ایک اسکول میں پناہ لے رکھی ہے، اسکول کھل جائے گا تو وہ کہاں جائیں گے۔

اسکول کے احاطے میں لگے پھولدار خیموں میں کم سن لڑکیوں کے قہقہے گونج رہے تھے۔

لہراتی ہوئی ان کے بالوں کی چوٹیاں، گلابی لباس اور ان کی چمکدار مسکراہٹ سے وہی تاثر ظاہر ہورہاتھا، جو دنیا بھر کے طالبعلم چھٹیوں کے لیے اسکول کے بند ہونے پر محسوس کرتے ہیں۔

لیکن وہ یہاں چھٹیوں پر نہیں آئی ہیں، نہ ہی یہ ان کا اسکول ہے۔ پھر بھی اس وقت یہی ان کا گھر ہے اور یہی ان کے لیے کھیل کا میدان بھی۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے نہیں چلے گا، اس لیے کہ ستمبر آئے گا اور گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوجائیں گی۔

پچھلے دو مہینوں سے تقریباً 39 مسیحی خاندان بنوں کنٹونمنٹ سے قریب سینٹ جان باسکو گرلز اسکول میں مقیم ہیں۔

جون میں میرعلی اور میرانشاہ سے بے گھر ہونے سے پہلے تقریباً تین نسلوں سے یہ خاندان شمالی وزیرستان میں رہتے چلے آرہے تھے۔

اگرچہ صرف وہی نہیں تھے جنہوں نے گرمیوں کی تعطیلات کے لیے بند اسکولوں میں پناہ لی تھی، شمالی وزیرستان سے نقلِ مکانی کرنے والی ایک بڑی پشتون آبادی کے لیے دستیاب امدادی نظام میں مسیحی برادری کے لیے اسکول میں پناہ لینا ہی ایک محفوظ راستہ تھا۔

زیادہ تر بے گھر پشتون بنوں، کرک، لکی مروت اور ڈی آئی خان جیسے ضلعوں میں منتقل ہوئے، جہاں ان کا خاندان مقیم تھا یا انہوں نے اپنے رشتہ داروں کے پاس پناہ لی تھی، مکان کرائے پر لیے، یا کوئی پشتون میزبان گھرانہ انہیں لے گیا تھا۔

شمالی وزیرستان کے یہ مسیحی زیادہ تر کم آمدنی والے مزدور ہیں، مکان کے مہنگے کرائے ادا کرنا ان کے بس میں نہیں تھا۔

نہ ہی وہ شمالی وزیرستان کے اردگرد کے ضلعوں میں آباد اپنی برادری کے تنگ حالات میں چھوٹے گھروں کے اندر زندگی گزارنے والے خاندانوں کو تکلیف دینا چاہتے تھے۔

بنوں کے سرحدی علاقے میں بکاخیل کیمپ میں قیام پر مسیحی خاندانوں کو پشتون آبادی کی طرز کے ہی تحفظات تھے، اس لیے انہوں نے غیرت کے نام پر اس کیمپ میں جانے سے انکار کردیا۔

کئی برسوں سے یہ مسیحی مقامی آبادی میں ضم ہوچکے ہیں اور انہوں نے ان کی زبان، ثقافت اور زندگی میں غیرت سے بندھے رویوں کو اپنا لیا ہے۔

سینٹ جان بوسکو اسکول کے پرنسپل حنوک مسیح کہتے ہیں کہ ’’وہ اپنی خواتین کے ہمراہ اجنبیوں کے درمیان نہیں رہنا چاہتے۔‘‘

اسکول کے کلاس رومز میں مقیم ان خاندانوں نے بستر کی پھولدار چادروں کو بطور دیوار استعمال کیا ہوا تھا۔

سفید واسکٹ پہنے مردوں کے جسم پسینے میں تر بتر تھے، لاؤنج کے اردگرد رسّیاں بندھی ہوئی تھیں، جبکہ خواتین اپنے لیے مخصوص جگہوں پر کام میں مصروف تھیں۔ مرد اپنے چھوٹے موٹے کامو ں پر جارہے تھے، تاکہ اپنی خاندان میں زندگی کی جھلک اور تحفظ کو برقرار رکھ سکیں، جسے وہ کھو چکے ہیں۔

نہ تو شمالی وزیرستان کی یہ مسیحی برادری پنجاب جاسکتی ہے، جہاں سے ان کے آباؤاجداد نے کئی دہائیاں قبل نقل مکانی کی تھی۔

وہ چاہتے ہیں کہ جب ان کی واپسی کا وقت آئے تو وہ واپس جا کر شمالی وزیرستان میں اپنے روزگار پر دوبارہ کام شروع کریں۔

ان لوگوں پر شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے کا لیبل بھی لگ گیا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں اقلیتوں کو اچھوت سمجھا جاتا ہے، جو شاید کہیں زیادہ سفاک ہے، اس لیے کہ ہندوؤں اور مسیحیوں کی ریاست کے ساتھ وفاداری پر شبہ کیا جاتا ہے۔

مسیحی برادری کے ایک رکن جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، نے کہا ’’اگر ہم پنجاب جاتے ہیں تو پولیس ہمیں دہشت گرد قرار دے گی، اس لیے کہ ہم شمالی وزیرستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ہم پر شک کریں گے کہ ہم پشتو اور پنجابی دونوں میں بات کرسکتے ہیں۔‘‘

یہ تو معلوم نہیں کہ یہ مسیحی جو فوجی آپریشن کی وجہ سے دس لاکھ لوگوں کے ساتھ نقل مکانی پر مجبور ہوئے، کب شمالی وزیرستان واپس جائیں گے۔

کیا ایک بار پھر یہ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے، اس مرتبہ انہیں اس اسکول سے نکلنا پڑے گا، جہاں ان لوگوں نے پناہ لی تھی۔

محکمہ تعلیم کے حکام نے شمالی وزیرستان سے نزدیک شہروں بنوں، کرک اور لکی مروت کے چودہ سو اسکولوں میں مقیم بے گھر افراد سے کہا ہے کہ وہ دس اگست سے پہلے ان اسکولوں کو خالی کردیں۔ یہ اسکول گرمیوں کی تعطیلات کے بعد یکم ستمبر کو دوبارہ کھل جائیں گے۔

ایک بار پھر بے دخلی کا سامنا کرنے والی یہ پشتون آبادی اور اقلیتوں کے لوگ جو اسکولوں میں مقیم ہیں، اردگرد پناہ حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔

لیکن انہیں زبردست مشکلات کا سامنا ہے۔ ان شہروں میں نقل مکانی کرنے والے افراد نے بہت مہنگے کرائے پر گھر حاصل کر رکھے ہیں، جو اسکولوں میں مقیم لوگوں کی استطاعت سے باہر ہے۔

سینٹ جان بوسکو اسکول میں مقیم اشفاق راشد مسیح کہتے ہیں ’’ہمیں اس شہر کے کسی پل کے نیچے پناہ تلاش کرنی ہوگی یا کسی سڑک کے ساتھ زندگی گزارنی ہوگی۔ کیمپوں میں ہمیں تحفظ مل جائے گا، لیکن وہاں ہم عبادت نہیں کرسکتے، اس لیے کہ وہاں کوئی چرچ نہیں ہوگا، جہاں ہم اپنی مناجات گا سکیں اور عبادت کے دوران موسیقی کا استعمال کرسکیں۔‘‘

وہ اور اس اسکول میں مقیم ان کے دیگر ساتھی چاہتے ہیں کہ حکام انہیں شہر کے اندر ان کی عبادت گاہوں کے نزدیک جگہ اور خیمے فراہم کردیں۔اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔

جبکہ ان بے گھر مسیحیوں کو ان کی برادری، فوج اور صوبائی حکومت کی جانب سے مدد ملی ہے، لیکن ان کے دوہرے ایڈریس یعنی ایک تو ان کا موجودہ رہائش شمالی وزیرستان کی ہے، اور مستقل رہائش پنجاب کی ہے، کی وجہ سے وفاقی حکومت کی جانب سے بے گھر افراد کو فرہم کی جانے والی مالی امداد کے لیے انہیں نااہل بنادیا ہے۔

اس پالیسی نے دیگر افراد کو بھی متاثر کیا ہے، جو دوہرے ایڈریس رکھتے ہیں، ان میں شمالی وزیرستان کے وہ بے گھر پشتون بھی شامل ہیں، جو بنوں، کرک، پشاور اور کراچی کے رہائشی ہیں۔

اشفاق راشد مسیح کہتے ہیں ’’ہم اپنا راشن فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، تاکہ اپنے میڈیکل بلز، ایندھن اور دیگر ضروریات کے لیے رقم حاصل کرسکیں۔‘‘

ان مسیحیوں میں سے ایسے افراد کو شمالی وزیرستان میں بطور کلرک، طبّی عملے میں اور ٹیچرز کی حیثیت سے کام کرتے تھے، ان کے صورتحال مزید بدتر ہوگئی ہے، کہ انہیں اب تک تین مہینوں کی تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔

اشفاق راشد مسیح کا کہنا ہے’’اب ہم بغیر پیسے کے اپنی زندگی دوبارہ کہاں جاکر شروع کریں گے۔یہاں شہر میں تو ہر چیز ہماری رسائی میں ہے۔ ہم باہر جاسکتے ہیں اور اشیائے ضرورت حاصل کرسکتے ہیں۔ شہر سے باہر جنگل میں قائم کیمپ میں قیام کے دوران ہم شدید گرمی میں برف کہاں سے خریدیں گے؟‘‘