پاکستان

بنوں میں ایف سی کے دستوں کی تعیناتی کی درخواست

وزارت داخلہ سے ایک درخواست میں کہا گیا ہے کہ دس لاکھ کے قریب آئی ڈی پیز کی آمد کے بعد موجودہ پولیس فورس ناکافی ہے۔

پشاور: ریاست اور سرحدی علاقوں کی وزارت نے وزارتِ داخلہ سے فرنٹیئر کانسٹبلری کے بیس دستے بنوں بھیجنے کے لیے کہا ہے، تاکہ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرکے یہاں آنے والے افراد کی بڑی تعداد کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھا جاسکے۔

ایک متعلقہ اہلکار نے جمعہ کے روز ڈان کو بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے حال ہی میں ریاست اور سرحدی علاقوں کے وزیر عبدالقادر بلوچ سے شورش زدہ شمالی وزیرستان سے ملحق بنوں میں ایف سی اہلکاروں کو بھیجنے کی درخواست کی تھی۔

یاد رہے کہ وفاقی وزیر نے آئی ڈی پیز کے لیے کیے گئے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے آٹھ جولائی کو بنوں کا دورہ کیا تھا اور اسی دوران ضلعی انتظامیہ نے یہ درخواست پیش کی تھی۔

وزارتِ داخلہ کو کچھ عرصہ پہلے ارسال کیے گئے ایک خط میں کہا گیا تھا کہ ’’اس ضلع میں آئی ڈی پیز کی موجودگی کے پیش نظر موجودہ پولیس فورس ناکافی ہے، چنانچہ سیکیورٹی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وزارتِ داخلہ کو چاہیٔے کہ وہ ایف سی کے کم از کم بیس دستے تعینات یہاں تعینات کرے۔‘‘

اس خط میں کہا گیا ہے کہ بنوں میں آٹھ لاکھ باون ہزار چار سو پچانوے آئی ڈی پیز کا اندراج کیا گیا تھا، اور اُن میں نقد رقم کی ادائیگی اور امدادی اشیاء کی تقسیم کے لیے فول پروف سیکیورٹی کے انتظامات ضروری ہیں۔

’’جو بھی دستیاب وسائل ہوں مہربانی فرما کر بہترین قومی مفاد میں بنوں کی ڈسٹرکٹ پولیس کو فراہم کیے جائیں۔‘‘

حکام کا کہنا ہے کہ بنوں ایک حساس ضلع ہے، اس کی پہلی وجہ تو اس کا محلِ وقوع ہے، دوسری وجہ بڑی تعداد میں آئی ڈی پیز کی یہاں آمد ہے۔

انہوں نے کہا کہ پانچ سو اہلکاروں کی تعیناتی کے لیے صوبائی حکومت نے حال ہی میں بنوں انتظامیہ کو زبانی ہدایت جاری کی تھیں، لیکن اس کے لیے اب تک رقم فراہم نہیں کی گئی ہے۔

حکام نے کہا کہ صرف 13 ریٹائیرڈ اہلکاروں نے اس مواقع کے لیے درخواست دی تھی۔

ان کے مطابق چالیس اہلکاروں پر مشتمل ایف سی کے دو دوستوں کی بنوں میں تعیناتی کی حال ہی میں منظوری دے دی گئی تھی، اور ان میں سے بیس اس اس وقت ہنگو میں زیرِ تربیت ہیں۔

ایک سینئر پولیس آفیسر نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت اس صورتحال سے بخوبی آگاہ ہے، لیکن انہوں نے اب تک اس کے لیے کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ بنوں پولیس کے اہلکاروں کی کل تعداد لگ بھگ ڈھائی ہزار ہے، جبکہ اس ضلع کی آبادی دس لاکھ کے قریب آئی ڈی پیز کی آمد کے بعد بیس لاکھ تک جا پہنچی ہے، یہ آئی ڈی پیز شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں وہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’جرائم کی شرح بنوں میں پہلے ہی بہت زیادہ تھی، لہٰذا آئی ڈی پیز کی آمد کے بعد سے پولیس پر مزیدبوجھ بڑھ گیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کو اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے گاڑیوں، مالی وسائل اور اضافی افرادی قوت کی ضرورت ہے۔

ایک اور اہلکار نے بتایا کہ ضلع میں وی آئی پی کے تحفظ، امداد کی تقسیم اور طبّی سہولیات کے مراکز پر تعیناتی کی وجہ سے پولیس پر اضافی بوجھ پڑ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی وزراء، وزرائے اعلٰی، سیاستدانوں اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کے عملے کے لوگ باقاعدگی کے ساتھ امدادی اشیاء کی تقسیم کے لیے اس ضلع کا دورہ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ضلعی پولیس کی ذمہ داری مزید مشکل ہوگئی ہے۔

پولیس اہلکار نے کا کہنا تھا کہ ضلع میں غذائی اشیاء کی تقسیم کے دس مراکز قائم کیے گئے ہیں، جبکہ آئی ڈی پیز کو نقد امداد دینے کے لیے پینتیس اضافی مراکز بھی کھولے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تین سے پانچ پولیس کانسٹبلوں کو نقد امداد کی تقسیم کے مراکز پر تعینات کیا جائے گا۔

’’اس کے علاوہ ساٹھ سے زیادہ پولیس اہلکار فوجی ڈاکٹروں اور طبّی عملے کے تحفظ کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔‘‘

اہلکار نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کو چھ سے ساتھ موبائل یونٹس کو روزانہ کی بنیاد پر وی آئی پیز کے تحفظ کے لیے تعینات کرنا پڑ رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے ضلع میں پولیس کی نقل و حرکت بڑھانے کے لیے گاڑیوں اور دیگر وسائل کے لیے صوبائی حکومت سے درخواست کی تھی، لیکن اب تک ان کی طرف سے جواب کا انتظار کیا جارہا ہے۔