ذہنی اذیّت سے دوچار وزیرستان کے قبائلی
پشاور: اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہونے والے قبائلی افراد اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ہچکچا رہے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں ان کی زندگی کسی تھی۔
تقریباً آٹھ سال تک ایک یرغمالی کی صورت میں زندگی بسر کرنے والے ان خوفزدہ لوگوں کو اپنے آبائی علاقوں سے حالیہ فوجی آپریشن کی وجہ سے نکلنا پڑا ہے۔ یہ آپریشن قبائلی علاقوں میں عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کیا جارہا ہے۔
لگ بھگ پانچ لاکھ کی تعداد میں قبائلی افراد ان کہے مصائب سے گزرنے کے بعد بنوں اور خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں میں پہنچے ہیں ۔
یہ بے یار و مددگار افراد کئی برس ایسی آزمائش سے گزرے ہیں، کہ ان کا ذہن یہ سوچنے کے قابل نہیں رہا ہے کہ وہ جب اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے توانہیں کس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جسمانی طور پر وہ شمالی وزیرستان سے باہر آگئے ہیں، لیکن ذہنی طور پر اب بھی محاصرے کی حالت میں ہیں۔
ان سے بات کی جائے تو وہ امریکی ڈرون اور فوجی قافلوں کی نقل و حرکت اور اندھا دھند گولہ باری کے بارے میں بات کریں گے۔
جب آپ ان سے ان کے علاقے میں عسکریت پسندوں (طالبان) کی موجودگی اور ان کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے اس کے اثرات کے بارے میں دریافت کریں تو وہ صرف ہنس دیتے ہیں یا پھر غیر ارادی طور پر پلکیں جھپکانا شروع کردیتے ہیں۔
میر علی کے ایک نوجوان محمد بشیر اپنی ان مشکلات کے بارے میں بلاتکان بولے جارہے تھے، جن کا سامنا انہیں پچھلے آٹھ سالوں سے کرنا پڑ رہا تھا۔
وہ کرفیو، ڈرون کی آوازوں، دھماکوں اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کی جانے والی گولہ باری کے بارے میں بات کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے گاؤں میں زندگی بہت دشوار تھی اور وہ اپنی مرضی سے زندگی نہیں گزار سکتے تھے۔
بشیر نے اپنے ناگوار تجربات کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہا ’’یہاں تک کہ کرفیو کی وجہ سے لوگ مرنے والوں کی تدفین یا مریضوں کو ہسپتال تک نہیں لے جاسکتے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ تعلیمی ادارے، ہسپتال اور دفاتر کرفیو کی وجہ سے مستقل بند تھے۔
وہ بنوں بازار میں ایک سڑک کے درمیان میں کھڑے غذائی اشیاء کی تقسیم کے مرکز پر لوگوں کے ہجوم کو دیکھ رہے تھے تو انہوں نے بتایا ’’زندگی معمول کے جیسی نہیں رہی تھی اور وزیرستان ایک جیل کی مانند بن گیا تھا۔ لوگ بالکل بھی خوش نہیں تھے۔‘‘
جب ان سے ان کے علاقے میں طالبان یا عسکریت پسندوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو بشیر نے گفتگو بند کر دی۔ وہ مسکرائے اور بات ختم کرتے ہوئے کہا ’’میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، یہ بھی نہیں کہ ہمیں ان کے ساتھ کیا کرنا چاہیٔے۔‘‘
شمالی وزیرستان ایک طویل عرصے سے تشدد کے زیرِ اثرت رہا ہے۔
اس علاقے میں تشدد کی اس داستان کا آغاز 2005ء کے دوران میرانشاہ میں بھتہ خوروں کے ایک گروپ کے سفاکانہ قتل کے ساتھ ہوا تھا۔
سیاسی انتظامیہ نے حکیم خان کو گرفتار کرلیا تھا۔ یہ اس گروپ کا لیڈر تھا، جبکہ طالبان نے اس کے حمایتیوں کی لاشوں کو مرکزی بازار میں بجلی کے کھمبوں سے لٹکادیا تھا اور لو ان کے سروں سے فٹبال کھیل رہے تھے۔
خونریزی کا یہ واقعہ اہم موڑ تھا، اور مسلح گروہوں نے ریاست کی عملداری کو چیلنج کردیا تھا۔
القاعدہ سمیت مزید گروپس بھی سامنے آگئے اور شمالی وزیرستان موت کے رقص کا ایک میدان بن گیا۔
یہاں کے قبائلی افراد ڈرون حملوں، کرفیو، سرعام دی جانے والی پھانسیوں، مبینہ جاسوسوں کے سرقلم اور ان کو ذبح کرنے اور دھماکوں کے سائے میں زندگی گزار رہے تھے۔
مبینہ جاسوسوں کو دھماکا خیز ڈیوائس پر بیٹھنے کے لیے مجبور کیا جاتا اور پھر انہیں دھماکے کے ساتھ اُڑا دیا جاتا۔لوگوں کو ذبح کرکے ان کی وڈیو فوٹیجز میڈیا کو جاری کی جاتی تھیں۔
شمالی وزیرستان ایک عام آدمی کے لیے نوگو ایریا بن گیا تھا، لیکن مختلف ممالک سے آئے ہوئے جنگجوؤں اور مفروروں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ تھا۔
پورے وزیرستان میں ہفتے میں دو مرتبہ کرفیو نافذ کیا جاتا۔ تعلیمی ادارے یا تو بند تھے یا پھر ان پر سیکیورٹی فورسز نے قبضہ کرلیا تھا۔
والدین کو منع کردیا گیا تھا کہ وہ پولیو سے محفوظ رکھنے والی ویکسین کے قطرے پلوانے کے لیے بچوں کو ہسپتال لے کر نہ جائیں۔ چنانچہ کچھ والدین نے بنوں سے یہ ویکسین پانی کے کولروں میں ’اسمگل‘ کروائی تاکہ اپنے بچوں کو ہمیشہ کے لیے معذور کردینے والی اس بیماری سے محفوظ رکھ سکیں ۔
یہاں تک کہ قبائلی لوگوں کے یہ دہشتناک خواب ختم ہوئے، اور طویل انتظار کے بعد شروع ہونے والے آپریشن ضربِ عضب سے پہلے ان سے یہ علاقہ چھوڑنے کے لیے کہا گیا۔
وہ گھٹن زدہ اور تیزی سے تبدیل ہوتے ماحول سے باہر آگئے ہیں، لیکن وہ اپنے خیالات اور احساسات بیان کرنے سے گریز کررہے ہیں۔
میرانشاہ سے تعلق رکھنے والے خلیل احمد نے کہا کہ لوگ امن کے بارے میں بات کررہے ہیں، لیکن عملی طور پر وہاں پچھلے ایک دہائی سے کوئی امن نہیں تھا۔
شمالی وزیرستان کے کچھ رہائشی جو اس طویل اور ڈراؤنے خواب سے گزرچکے ہیں، یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر ریاستی ادارے صورتحال کے اس نقطے تک پہنچنے سے پہلے کنٹرول کرنے کے بجائے کیوں غیر فعال رہے۔
میر علی سے آئے ہوئے دسویں جماعت کے ایک طالبعلم فیصل حسین نے کہا ’’میں نہیں جانتا کہ ہماری سیکیورٹی فورسز ہمارے علاقے سے 2007ء کے دوران غلط لوگوں کو کیوں نہیں نکال سکی تھیں۔اس وقت آپریشن شروع کردیا گیا ہے لیکن صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔اب ایک بار پھر غلط لوگوں کے خلاف آپریشن شروع کرکے لوگوں کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا گیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا ’’مجھے یقین نہیں آتا کہ ہماری فوج اس قدر کمزور ہے کہ وہ مختصرسی تعداد میں لوگوں کو کچل نہیں سکتی۔‘‘
خیسور گاؤں سے تعلق رکھنے والے عبدالعزیز بھی اسی طرح کے تذبذب میں مبتلا تھے۔ انہوں نے فوج کے خلاف شکایات کا ایک ڈھیر لگادیا، لیکن انہوں نے اُن عسکریت پسندوں کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا جو ان مسائل کی بنیادی جڑ تھے۔ وہ شاکی دکھائی دے رہے تھے اور ان کے کچھ سوالات ایسے تھے جن کا جواب مشکل تھا۔
عبدالعزیز جب بات کررہے تھے تو ان کی آواز غصے، دکھ اور بے بسی کی وجہ سے بھرّا گئی تھی، انہوں نے کہا ’’کیا ہم انسانی حقوق نہیں رکھتے؟ کیا اقوامِ متحدہ کو نہیں معلوم کہ ہمارے ساتھ کیا کیا جارہا تھا؟ مسئلہ یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی میڈیا نے ہمارے صورتحال پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔‘‘
پسینے سے شرابور ایک بزرگ جو راشن کی قطار میں انتظار کررہے تھے، کہنے لگے ’’اگر میں نے سچ کہہ دیا، پھر نہ تو میں اور نہ ہی تم اس دنیا میں زندہ رہ سکو گے۔‘‘
انہوں نے اپنے اوپر گزری اذیتوں میں سے کوئی حصہ بھی بیان کرنے سے انکار کردیا، شاید اس لیے کہ انہوں نے انسانی حقوق اور آزادیٔ اظہارِ رائے پر سے اعتماد کھو دیا تھا۔