پاکستان

'شیرِ لاہور' گرفتار

گلوبٹ عرف شیر لاہور مسلم لیگ نون کا عہدیدار ہے، جس نے پولیس کی سرپرستی میں کل ماڈل ٹاؤن میں گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی تھی۔

لاہور (عمران گبول کی رپورٹ) : تصویر میں دکھائی دینے والا یہ شخص جو پولیس کی سرپرستی میں ماڈل ٹاؤن لاہور میں منہاج القرآن سیکریٹیریٹ کے قریب بڑی تعداد میں پارک کی گئی گاڑیوں کو نقصان پہنچا رہا ہے، دراصل حکمران جماعت مسلم لیگ نون کا ایک عہدیدار ہے۔

ٹی وی کے کیمروں نے بھی یہ مناظر ریکارڈ کر لیے تھے کہ ایک شخص بڑی تعداد میں گاڑیوں کو نقصان پہنچا رہا ہے، جبکہ پولیس وہاں موجود تھی اور عملی طور پر اسے یہ کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔

جب کچھ لوگوں نے اس کو رنگے ہاتھوں پکڑا تو پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے اس کو چھڑا لیا اور جانے دیا۔

بعد میں اس شخص کی شناخت بطور گلّو بٹ عرف شیرِ لاہور کے نام سے کرلی گئی۔ یہ مسلم لیگ نون کا ایک عہدیدار ہے اور اس علاقے میں ’’پولیس ٹاؤٹ‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

اس کے اوپر فیصل ٹاؤن میں دکانداروں سے بھتہ وصولی کا بھی الزام ہے۔

اس کے علاوہ بھی مسلم لیگ نون کے کچھ کارکنان اس آپریشن کے دوران موجود تھے، اور انہیں مختلف ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں۔

اس آپریشن کے دوران پولیس اہلکاروں نے بھی ماڈل ٹاؤن کی خالد انٹرنیشنل مارکیٹ کی دکانوں کو تباہ کیا۔

ایک دکاندار نوید باجوہ نے بتایا ’’کچھ پولیس اہلکاروں نے میری دکان میں توڑ پھوڑ کی اور کولڈرنک کے علاوہ کھانے پینے کی دیگر چیزیں لے گئے۔‘‘

نوید باجوہ نے کہا کہ اگرچہ انہوں نے پولیس کو دیکھنے کے بعد دکان نہیں کھولی تھی، پولیس والوں نے ان دکانوں کو بھی تباہ کرنے سے گریز نہیں کیا، جنہیں اس قدر چلچلاتی دھوپ میں ان کی پیاس بجھانے کےبعد بند کیا گیا تھا۔

مسلم لیگ نون کے پرویز ملک نے یہ اعتراف کیا کہ گلو بٹ ان کی پارٹی کا ایک کارکن تھا، لیکن پارٹی اس کے اس عمل کی تائید نہیں کرتی۔

بعد میں وزیرِ اعلٰی پنجاب شہباز شریف نے آئی جی کو ہدایت کی کہ گلو بٹ کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔

لاہور سے وسیم ریاض نے اطلاع دی ہے کہ سی سی پی او چوہدری شفیق گجر کے مطابق منگل کی رات گلو بٹ کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ کل لاہور میں پولیس اہلکاروں کے ایک دستے کی جانب سے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کی رہائشگاہ کے باہر رکاوٹیں دور کرنے کے لیے ایک اینٹی انکروچمنٹ مہم شروع کی گئی تھی۔

طاہر القادری کے حمایتوں کی جانب سے مزاحمت پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور احتجاج کرنے والے ان افراد پر فائرنگ کردی، جنہوں نے پولیس پر پتھراؤ شروع کردیا تھا۔

چنانچہ پولیس اہلکاروں اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان ایک پُرتشدد تصادم شروع ہوگیا، جس میں کم از کم ایک خاتون سمیت سات افراد ہلاک ہوگئے۔

اس تصادم کے دوران بڑی تعداد میں گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔