دنیا

ہندوستان میں مودی لہر، کانگریس نے شکست تسلیم کرلی

اب تک کے نتائج کی روشنی میں بی جے پی تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے، وزیراعظم منموہن سنگھ کی نریندر مودی کو مبارک باد

نئی دہلی: عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق دس برس تک ہندوستان کے اقتدار پر فائز رہنے والی حکمران جماعت نے ابتدائی نتائج میں سخت گیر رہنما کی قیادت میں حزبِ اختلاف کی جماعت کی بھاری اکثریت میں کامیابی کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔

نئی دہلی میں کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما اور ترجمان راجیو شکلا نے پارٹی کے ہیڈکوارٹرز پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم شکست تسلیم کرتے ہیں۔ ہم حزبِ اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’مودی نے عوام کے ساتھ چاند اور ستاروں کے وعدے کیے تھے، لوگوں نے ان سے یہ خواب خرید لیے۔‘‘

اب تک کے نتائج یہ ظاہر کررہے ہیں کہ بی جے پی ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔ اس وقت بے جی پی272 سیٹوں پر دیگر جماعتوں سے آگے ہے، یعنی وہ بغیر کسی اتحاد کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ گجرات، جھارکھنڈ، دہلی، راجستھان، اتراکھنڈ میں پارٹی نے تقریباً کلین سوئیپ کردیا ہے۔

اس کے علاوہ یوپی میں اس کو انسٹھ سیٹیں حاصل ہوتی نظر آرہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس قدر بڑی کامیابی کی بی جے پی کے رہنماؤں کو بھی امید نہیں تھی، اس کے ساتھ بہار میں بھی پارٹی کو خاصی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ پارٹی نے مغربی بنگال اور شمال مشرقی ریاستوں میں بھی اپنی موجودگی کا احساس کروایا ہے۔اس سے قبل ان ریاستوں میں بے جی پی کا وجود نہیں تھا۔ بی جے پی کے رہنما اسے مودی کی لہر قرار دے رہے ہیں۔

اس سے قبل ہندوستان میں نو مراحل میں لوک سبھا انتخابات کی تکمیل کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل صبح سویرے شروع ہوا۔

یاد رہے کہ سات اپریل سے شروع ہو کر 12 مئی کو نو مراحل میں مکمل ہونے والے اب تک کے سب سے طویل انتخابی عمل میں 51 کروڑ سے زیادہ ہندوستانی شہریوں نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا۔

ہندوستانی الیکشن کمیشن کے مطابق اس مرتبہ سب سے زیادہ یعنی 66.4 فیصد ووٹ کاسٹ کیے گئے، چنانچہ اس طرح 1984ء میں اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے انتخابات میں ڈالے گئے 64 فیصد ووٹوں کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا۔

الیکشن کمیشن کے مطابق اس مرتبہ کل 55.1 کروڑ ووٹروں نے ووٹ ڈالا جو 2009ء میں ووٹ کا حق استعمال کرنے والے 41.7 کروڑ ووٹروں کے مقابلے میں 32 فیصد زیادہ ہے۔

اس انتخابات میں کل ووٹروں کی تعداد 81 کروڑ سے زیادہ تھی، جو یورپین یونین کے تمام ممالک کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔

کل ووٹروں میں سے اٹھائیس ہزار تین سو چودہ ووٹروں نے اپنی شناخت ٹرانس جینڈر بیان کی ہے، جبکہ گیارہ ہزار آٹھ سو چوالیس ووٹر بیرونِ ملک مقیم ہندوستانیوں نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔

اٹھارہ سال سے انیس سال کے ووٹروں کی تعداد دو کروڑ اکتیس لاکھ اکسٹھ ہزار دو سو چھیانوے رہی۔انتخابی نتائج میں کسی کی بھی کامیابی یا ناکامی کا انحصار انہی نوجوانوں کے ووٹوں پر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے دوران تمام سیاسی جماعتوں نے ہی نوجوان ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی ہیں۔

ووٹوں کی اب تک کی گنتی سے نریندرا مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کے واضح امکانات سامنے آگئے ہیں۔

اس سے پہلے رات گئے تک الیکشن کمیشن نے لوک سبھا انتخابات کے ووٹوں کی گنتی کے لیے تیاری مکمل کرلی تھی۔ صبح آٹھ بجے سے ہندوستان بھر کے 989 مراکز پر ووٹوں کی گنتی کے عمل کا آغاز ہوا۔

امید کی جا رہی ہے کہ تین سے چار بجے تک تمام نتائج جاری کر دیے جائیں گے۔ شام کو الیکشن کمیشن پریس کانفرنس کے ذریعے سرکاری طور پر اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کر دے گا۔

دوسری جانب لوک سبھا انتخابات کے بعد ایگزٹ پول کے نتائج سے بی جے پی کے حق حوصلہ افزاء رجحانات کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کے دفاتر میں جشن کی تیاریاں شروع کردی گئی تھیں۔ اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ، دہلی سمیت دیگر ریاستوں میں بی جے پی کے دفاتر میں مٹھائیوں کے انتظامات کے ساتھ ساتھ آتش بازی کی بھی تیاری کی جا چکی ہے۔ کئی مقامات پر کامیابی کی دعا کے لیے مذہبی رسومات اور دعاؤں کا اہتمام بھی کیا گیا۔

رانچی شہر واقع بی جے پی ریاستی دفتر کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔ یہاں ایک ہزار کلوگرام لڈو کی تیاری کا آرڈر دیا گیا ہے۔

بے جی پی کے اکثر دفاتر میں ووٹوں کی گنتی کے لیے جاری براہِ راست ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے بڑے سائز کی اسکرین لگائی گئی ہیں۔

پٹنہ میں نریندر مودی کے لیے جمعرات کو گنگا کنارے کالی گھاٹ پر مذہبی رسومات ادا کی اب تک کے نتائج سے اتر پردیش میں بی جے پی اور نریندر مودی کی کامیابیوں واضح اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے ملک بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کیے، لیکن صرف پنجاب میں ہی اُن کے امیدوار مقابلے میں آگے ہیں۔ دہلی میں ساتوں سیٹوں پر بی جے پی کے کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔

انتخابی تجزیہ کاروں کی توجہ سب سے اہم انتخابی ریاست اتر پردیش اور بہار پر مرکوز ہیں۔ لیکن ان دونوں ہی ریاستوں میں اوسطا کم ووٹ کاسٹ کیے گئے۔ یوپی میں 58.6 فیصد جبکہ بہار میں 56.5 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔

ہندوستانی حکومت نے انتخابات پر کل 3426 کروڑ روپے خرچ کیے جو 2009ء کے مقابلے میں 131 فیصد زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت انتخابی عمل میں1483 کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔

اس انتخابات میں ایک انوکھی اور خاص بات یہ تھی کہ ووٹروں کو پہلی مرتبہ تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کا اختیار بھی دیا گیا تھا، یعنی ایسے لوگوں کو بھی اپنی آواز بلند کرنے کا موقع ملا، جن کا خیال تھا کہ ان امیدواروں میں سے کوئی بھی ان کی معیار پر پورا نہیں اترتا۔

ہندوستان میں نئی حکومت بننے کی امید کے ساتھ ہی آج اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی دیکھی گئی اور ڈالر کے مقابلے ہندوستانی روپیہ 10 ماہ کے بلند سطح پر پہنچ گیا ہے۔


منموہن سنگھ کی نریندر مودی کو مبارک باد

ہندوستانی وزیراعظم منموہن سنگھ نے جمعے کے روز بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ نریندر مودی کو عام انتخابات کے دوران کامیابی پر ان سے ملاقات کی اور مبارک باد پیش کی۔

وزیراعظم آفس کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے پیغام میں کہا گیا کہ منموہن سنگھ نے نریندر مودی کو ملاقات کے لیے مدعو کیا اور پارلیمانی انتخابات کے دوران ان کی پارٹی کی کامیابی پر انہیں مبارک باد پیش کی۔

ان تک کے نتائج کے مطابق بی جے پی ہندوستان میں تیس سال کے بعد بھاری اکثریت حاصل کرنے جارہی ہے جبکہ اس حریف جماعت کانگریس پہلے ہی شکست قبول کرچکی ہے۔

81 سالہ منموہن سنگھ وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنے کے بعد سیاست سے ریٹائر ہوجائیں گے۔