پاکستان

'حاضرسروس فوجیوں کے خلاف مقدمہ ممکن'

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان آرمی ریگولیشن ایکٹ کے تحت حاضر سروس فوجیوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے۔

اسلام آباد: پاکستان کی عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق مقدمہ کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا ہے کہ حاضر سروس فوجیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاسکتی ہے۔

اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ پاکستان آرمی ریگولیشن ایکٹ کے تحت حاضر سروس فوجی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جاسکتا ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مالاکنڈ کے 35 لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے کی سماعت آج جمعرات کے روز کی۔

سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حاضر سروس اہلکار پر ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے۔ یہ سوال ابھی جواب طلب ہے کہ حاضر سروس فوجیوں کے خلاف ٹرائل فوجی عدالت میں چلے گا یا سول عدالت میں۔

اس موقع پر بینچ میں شامل جسٹس گلزار نے ریمارس دیے کہ میجسٹریٹ کی طرف سے فوجی اہلکار کو فوجی حکام کے حوالے کرنے کے قواعد و ضوابط ہونے چاہئیں۔

اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ اور ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا عبداللطیف یوسفزئی کی طرف سے جمع کرائے جواب میں کہا گیا ہے کہ آرمی ریگولیشن ایکٹ کے تحت مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے۔


سول عدالتیں فوجی اہلکار کے خلاف سماعت کرسکتی ہیں؟


اس سے قبل بدھ کو سپریم کورٹ حکومت کے اس مؤقف پر برہمی کا اظہار کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سول عدالتیں حاضر سروس فوجی اہلکاروں کے خلاف کسی جرم پر مقدمات نہیں چلاسکتیں۔

عدالت نے گزشتہ روز کی سماعت میں اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ اور خیبر پختونخوا کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالطیف یوسف زئی سے کہا کہ وہ عدالت کو یہ دریافت کرنے میں مدد کریں کہ آیا ایک جرم کا مقدمہ مسلح افواج کے اہلکار کے خلاف درج کیا جاسکتا ہے۔