نریندر مودی اور نواز شریف ساتھ ساتھ
پاکستان' کے عوام ہندوستان میں ہونے والے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ہی اپنے ووٹ کا صحیح حقدار سمجھتے ہیں اور بی جے' پی کی جانب سے نامزد وزیراعظم نریندر مودی کو ہی ہندوستان کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔
حیران ہوگئے نا پڑھ کر۔۔۔ یقین جانیئے، یہ حقیقت ہے!
آپ کے دل میں بھی آرہا ہوگا کے یہ کونسے پاکستانی ہیں جو گجرات میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کے سرغنہ (مبینہ طور پر) نریندر مودی کو ہندوستان کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔
زیادہ حیران نا ہوں اور چھری تلے ذرا دم لیں۔ یہ پاکستان وہ نہیں جہاں میں اور آپ جھک مار رہےہیں۔ 'پاکستان' نام ہے ایک گاؤں کا جو ہندوستان کی ریاست بہار کے ڈسٹرکٹ پورنیا میں ہندوستان اور بنگلہ دیش کے بارڈر پر واقع ہے۔
گاؤں والوں نے انیس سو سینتالیس میں مشرقی پاکستان ہجرت کر جانے والے ہمسایوں کی یاد میں اپنے گاؤں کا نام 'پاکستان' رکھ دیا.
بہار میں قائم اس گاؤں میں کالونیوں کے نام بھی ہمارے پاکستان کی کالونیوں جیسے ہی ہیں۔ مثلا بہار کالونی، دہلی کالونی، علیگڑھ کالونی اور خاص طور پر کراچی کالونی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نامی اس گاؤں میں لاہوری حلوہ، سیالکوٹ سپورٹس اور پشاور سٹور جیسی دوکانیں بھی موجود ہیں۔
آئے روز بارڈر پر ہونے والی فوجی جھڑپوں اور ماضی میں ہونے والی چار جنگوں کے باوجود اِس گاؤں کے رہائشی اپنے گاؤں کا نام 'پاکستان' رکھنے پر ہی بضد ہیں۔ ہندوستانی پاکستان کے بہاری لوگ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں اور کسی بھی قسم کی دشمنی کے خلاف ہیں۔
اب ذرا بات کرتے ہیں اِس پاکستان کی جس کے رہائشی بی جے پی کی جانب سے نامزد کردہ وزیر اعظم نریندر مودی کو انتہائی ناپسند کرتے ہیں اور اس کی وجہ ہندوستانی ریاست گجرات میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام میں نریندر مودی کا مبینہ کردار ہے۔ اس کے علاوہ، انتخابی ریلیوں میں پاکستان مخالف اور دھمکی آمیز بیانات کی وجہ سے بھی پاکستانی مودی کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
یاد رہے کے ہندوستان کی ریاست گجرات میں دو ہزار دو میں ہونے والے فسادات میں دوہزار سے زائد مسلمان ظلم کا نشانہ بنے اور اس وقت کے گجراتی وزیر اعلٰی نریندر مودی کی جانب سے فسادات روکنے کے لئے خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے گئے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کی اِملاک کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
یہ فسادات اُس وقت شروع ہوئے جب ستائیس فروری دو ہزار دو کو گودھرا کے مقام پر ہندو زائرین کی ٹرین کو آگ لگا دی گئی۔ ٹرین میں آگ لگنے کے ساتھ ہی گجرات ریاست میں افواہیں پھیلنے لگیں کے ہندو زائرین کی ٹرین کو مسلمانوں نے آگ لگائی ہے۔ جس کے بعد مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔
اس کے علاوہ نریندر مودی کو اس لئے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کے انہوں نے کارسیوک اہلکاروں کو گودھرا سے احمد آباد بھیجا جو مزید فسادات کا سبب بنے۔
بارہ جولائی دو ہزار تیرہ کو دیئے گئے ایک انٹرویو کے دوران مسلمانوں کے قتل عام سے متعلق سوال پر نریندر مودی کا کہنا تھا کہ اگر ہم گاڑی میں پیچھے بیٹھے ہوں اور ایک کتّے کا ِپلّا پہیے کے نیچے آجائے تو کیا وہ تکلیف دہ نہیں ہوگا۔ یقینا ہوگا۔ میں وزیر اعلٰی ہوں یا نہیں، مگر ایک انسان ضرور ہوں۔ اگر کہیں بھی کچھ برا ہوتا ہے تو قدرتی طور پر وہ برا ہی ہوگا۔
اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے جس نے نریندر مودی کو دو ہزار چودہ میں ہونے والے انتخابات میں وزیر اعظم کے لئے نامزد کیا ہے۔ تو پتہ لگتا ہے کے بی جے پی حکومتی ادوار میں پاکستان اور ہندوستان تعلقات میں نشیب و فراز آتا رہا ہے۔ کبھی بی جے پی کی جانب سے اٹل بہاری واجپائی دوستی بس پر سوار ہو کر لاہوری کھانوں کا مزہ چکھنے آن پہنچے۔ کبھی ہندوستانی پارلیمنٹ پر کشمیری انتہا پسندوں کی جانب سے حملے کے نتیجے میں بنی بنائی دوستی دوبارہ دشمنی میں بدل گئی اور دونوں ممالک کی فوجوں کو سرحدوں پر چوکنا رہنے کے احکامات دے دیئے گئے۔
بی جے پی حکومت نے ہندوستان میں اقتدار سنبھالتے ہی مارچ انیس سو اٹھانوے میں پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکے کئے۔ بی جے پی حکومت کے اس اقدام کو ہندوستان میں بہت پزیرائی ملی اور انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے بی جے پی کی حکومت کو خوب سراہا گیا۔
ہندوستان کی جانب سے ایٹمی دحماکوں کے بعد تو پاکستانی عوام غصے میں آگ بگولہ ہونے لگے اور ہندوستان کو جواب دینے کے لئے سڑکوں پر مظاہرے کرنے لگے۔ جس کے بعد نواز شریف کی حکومت نے بھی حوصلہ کیا اور اسی سال مئی کے مہینے میں ایٹمی دھماکے کرکے ہندوستان کو جواب دیا۔
دونوں ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک کے بیچ پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب فروری انیس سو ننانوے میں بی جے پی کے ہندوستانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی دوستی بس پر سوار ہو کر لاہور آگئے اور اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کے ساتھ لاہور ڈیکلریشن پر دستخط کئے۔
ابھی دونوں ملک دوستی کی پینگیں لینا شروع ہوئے ہی تھے کہ کارگل کے مقام پر دونوں کی فوجیں ایک دوسرے کے خلاف خودکش ہتھیار استعمال کرنے لگیں۔ جس کے نتیجے میں لاہور ڈیکلریشن بھی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گیا اور دونوں دوست پھر سے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔
بی جے پی حکومت انڈین نیشنل کانگریس کی یونائیٹڈ فرنٹ سے علیحدگی کے بعد تحلیل ہوگئی۔ جس کے نتیجے میں انیس سو اٹھانوے میں دوبارہ لوک سبھا کے انتخابات کروائے گئے اور بی جے پی دو سو چھیاسی ممبران کے ذریعے دیگر جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔
مگر اسی سال کے آخر میں اٹھارہ اراکین اسمبلی کی اتحاد سے علیحدگی پر بی جے پی حکومت کو پھر گھر جانا پڑا اور انیس سو ننانوے میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت رکھنے والے ملک میں ایک دفعہ پھر سے انتخابات کروائے گئے۔ اِن انتخابات میں نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ جس کے نتیجے میں بی جے پی کی حکومت نے پانچ سالہ جمہوری دور اقتدار مکمل کیا۔
دسمبر انیس سو ننانوے میں جنگجوئوں کے ایک گروہ نے ہندوستانی جہاز اغوا کر کے افغانستان میں اس وقت قائم طالبان حکومت کے زیر کنٹرول قندھار ایئر پورٹ لے گئے۔ جنگجو بی جے پی کو مجبور کرنے میں کامیاب ہوگئے اور معروف دہشت گردوں مثلا مسعود اظہر، احمد عمر سعید شیخ اور دوسرے دہشت گردوں کو بازیاب کروانے میں کامیاب رہے۔ لیکن خوش قسمتی سے نواز حکومت اس الزام سے بچ گئی کیونکہ نواز حکومت تو اپنے ہی ہاتھوں چنے گئے فوجی سپہ سلار کے ہاتھوں تب تک تختہ الٹوا بیٹھی تھی۔
مسلم لیگ نواز اور بی جے پی کی کنڈلیوں میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اگر بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں اکثریت حاصل کرتی ہے تو انیس سو اٹھانوے کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت ہی ہو گی۔
انیس سو اٹھانوے میں بی جے پی کے پہلے دور اقتدار کے آغاز کے وقت بھی پاکستان میں نواز شریف کی حکومت ایک سال سے زائد عرصہ مکمل کرچکی تھی۔ اور تو اور جب پرویز مشرف نے انیس سو ننانوے میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا (مشرف نے قوم سے خطاب بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کی رات دو بجکر پچاس منٹ پر کیا) ٹھیک اسی دن تیرہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو ہی بی جے پی نے اپنی دوسری حکومت کا حلف اٹھایا۔ لہزٰا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں بی جے پی کا دوسرا دور حکومت اور پاکستان میں آمریت کا آغاز ایک ہی روز ہوا۔
اگر اپریل مئی 2014 میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی تیسری مرتبہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس وقت تک نواز شریف کی تیسری حکومت پارلیمان میں ایک سال کا عرصہ مکمل کر چکی ہو گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی حکومت اور نواز حکومت ماضی کے دو دشمن ہمسائیوں کے مابین کیسے تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ انتخابات سے قبل تو بی جے پی کے عہدیداران ووٹ حاصل کرنے کئے ہر قسم کے حربے آزما رہے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
مثلا نریندر مودی نے بی جے پی کی جانب سے نامزدگی کے بعد ہندوستانی دارلحکومت نئی دہلی میں ہونے والی انتخابی ریلی کے دوران وعدہ کیا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کے خلاف سخت مؤقف اپنائیں گے۔ منموہن-نواز ملاقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ منموہن سنگھ بہت کمزور ہیں جو ہندوستان میں پاکستانی زمین سے ہونے والی دہشت گردی کا معاملہ بھی اپنے ہم منصب کے سامنے نہ اٹھا سکے۔
اس کے علاوہ ہریانہ کے مقام پر نریندر مودی نے خطاب میں کہا کہ پاکستان انڈیا مخالف رویہ ترک کر دے اور دہشت گردوں کی پشت پناہی سے باز آجائے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر اب ایسا ہوا تو پاکستان کو وہ مزہ چکھائوں گا جو اس نے پچھلےساٹھ سالوں میں نہیں چکھا ہوگا۔
مودی نے پاکستان پر مزید الزام لگایا کہ پاکستان نے اپنی جنگی ذہنیت اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہندوستان کو حالت جنگ میں رکھا ہوا ہے۔ پہلے جنگیں سرحدوں پر لڑیں جاتی تھیں مگر جب پاکستان ہندوستان کو ہرا نہیں سکا تو اس نے معصوم لوگوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ جلسے میں آئی عوام کی جانب سے حوصلہ افزائی پر مودی نے مزید کہا کہ پاکستان اس طرح کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا۔
گزشتہ دنوں ڈان میں چھپنے والی غیر ملکی نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق نریندر مودی کے دو معاونین نے بھی یہ عِندیہ دیا ہے کہ اگر نریندر مودی وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو پاکستان کے ساتھ دشمنی میں سختی پیدا ہوجائیگی۔
اس کے برعکس پاکستانی حکومت مستقبل میں ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے۔ پندرہ نومبر دو ہزار تیرہ کو ایک انٹرویو کے دوران نواز حکومت کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان مودی کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہے۔ نواز شریف ہندوستان کے ساتھ امن چاہتے ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں کوشیشیں بھی شروع کردیں ہیں۔
اگر بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس وقت بھی پاکستان میں نواز شریف کی ہی حکومت ہوگی۔ مگر شاید خطے کے موجودہ حالات دونوں حکومتوں کو کوئی انتہائی قدم اٹھانے کی اجازت نا دیں جس کی ایک وجہ یقیناً علاقے میں امریکہ کا مضبوط پڑاؤ بھی ہے
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔