دنیا

افغان خواتین کی امیدیں بیلٹ بکس سے وابستہ

افغانستان کے انتخابات میں تین سو خواتین حصہ لے رہی ہیں، حن میں سے حبیبہ ساروبی نائب صدر کے عہدے کے لیے امیدوار ہیں۔

کابل، افغانستان: مریم وردک کا شمار ان افغان خواتین میں ہوتا ہے، جو دو یکسر مختلف معاشروں میں زندگی گزار چکی ہیں۔ ان کی زندگی کے اٹھائیس برس میں سے ان کی بالغ عمری کا زیادہ تر حصہ افغانستان میں گزرا، لیکن ان کی پرورش امریکا میں ہوئی، جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ آگئی تھیں۔ ایک دہائی پہلے جب وہ دیہی صوبے وردک میں اپنے خاندان کے گاؤں گئی تھیں تو وہاں ان کو جو کلچر شاک لگا تھا وہ آج بھی انہیں پوری شدت سے یاد ہے۔

انہوں نے بتایا ’’ایک خاتون پچیس سال سے جس گھر میں رہ رہی ہے وہاں وہ اپنے دیور کے سامنے اپنا چہرہ ظاہر نہیں کرسکتی۔ لوگ مزاحیہ انداز میں کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہماری خواتین کو اغوا کرکے لے جائے تو ہم ان کی شناخت ان کی آواز کے ذریعے ہی کرسکیں گے۔ اب وردک میں خواتین اپنے چہرے ظاہر کرسکتی ہیں۔ اب ہر ایک ان کے چہروں کو دیکھ سکتا ہے۔‘‘

مریم وردک کی والدہ ذکیہ کی مثال نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ وہ گھر سے باہر برقعہ اوڑھ کر نکلتی تھیں۔ لیکن اب ان کا چہرہ وردک کی صوبائی کونسل کے ہزاروں بیلٹ پمفلٹس پر شایع ہوچکا ہے۔وہ سیدآباد میں اپنی انتخابی مہم چلارہی ہیں، جہاں طالبان کی گرفت مضبوط سمجھی جاتی ہے۔

افغانستان کے انتخابات جو ہفتہ کے روز ہونے جارہے ہیں، اس مرتبہ ان کی ساتھیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ اس لیے کہ تین سو دیگر خواتین بھی صوبائی کونسل کی نشستوں کے لیے ملک بھر سے مقابلہ کررہی ہیں، یہ تعداد پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اور یہ پہلا موقع ہے کہ ایک خاتون حبیبہ ساروبی جو بامیان صوبے کی سابق گورنر رہ چکی ہیں، نائب صدر کے عہدے کے لیے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

بین الاقوامی امداد کے ذریعے افغان خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کئی برسوں سے کی جانے والی کوششوں کے بعد بالآخر یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ خواتین افغانستان کی سیاست کا ایک اہم حصہ بن گئی ہیں، اگرچہ وہ زیادہ بااختیار نہیں ہیں۔

لیکن یہ فوائد جو انہیں حاصل ہوئے ہیں دلکش رنگوں سے بھرپور اس کی خوشیوں کے جشن کو یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ اگر مغربی امداد میں کمی آئی یا انتہاپسند دوبارہ اقتدار میں آگئے تو یہ باآسانی ختم ہوسکتے ہیں۔

یہ خدشات خواتین کے لیے مہم چلانے والوں میں تیزی پیدا کررہے ہیں، جو اس جابرانہ معاشرے میں ان کی قیادت کو زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول بنانے کے لیے دل کی گہرائیوں سے جدوجہد کررہے ہیں۔

مریم وردک ان دنوں اپنی والدہ کے ساتھ ساتھ حبیبہ ساروبی کی مہم میں کام کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ حقیقت دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ خوفناک بھی ہے کہ بین الاقوامی موجودگی نے ہی دراصل یہاں کی خواتین کو بااختیار بنایا ہے، اور جب وہ یہاں سے چلے جائیں گے، بہت سی خواتین کے لیے یہ فکرمندی کی بات ہوگی۔‘‘

ایک قابلِ ذکر تبدیلی تو یہ آئی ہے کہ جلسوں کے دوران ڈائس سے خطاب کرنے والی خواتین میں بہت سے معروف قومی امیدواروں میں سے دو کی اہلیہ بھی شامل ہیں۔

خواتین کا یہ ہجوم افغان معاشرے کے لیے بالکل انوکھی بات ہے کہ جہاں زیادہ تر عوامی شخصیات اپنی بیویوں کو روایتی طور پر گھروں تک محدود رکھتے ہیں، ان میں صدر حامد کرزئی بھی شامل ہیں، حالانکہ کئی سال پہلے انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ خواتین افغان معاشرتی زندگی کا ایک نظر آنے والا حصہ بن جائیں گی۔

افغان خاص طور پر حبیبہ ساروبی کے حوالے سے حیرت کا شکار ہیں، جو صدارتی امیدوار زالمے رسول کے لیے ایک ساتھی کے طور پر مہم چلارہی ہیں۔ ان کا نام صدارتی ٹکٹ کے لیے محض علامتی طور پر نہیں لیا جارہا ہے، بلکہ وہ اپنے حق کے لیے بھی مہم چلارہی ہیں۔

گزشتہ جمعرات کو مزارشریف کے جنوبی شہر میں ہزاروں مردوں کے ساتھ چند سو خواتین کی موجودگی سے حبیبہ ساروبی کو بے تحاشہ خوشی ہوئی تھی۔

زالمے رسول کی مہم میں شامل ایک معاون حسیب ہمایوں نے کہا کہ ’’انہوں نے جلسوں کو بہت زیادہ پُرجوش بنادیا ہے۔‘‘

حبیبہ ساروبی نے وضاحت کی کہ ’’لوگ کچھ تبدیلی چاہتے ہیں، اور خواتین کو ٹکٹ دیا جانا ان کے لیے ایک تبدیلی ہے۔‘‘

فوزیہ کوفی ایک سیاستدان اور انسانی حقوق کی وکیل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’ایک خاتون کے لیے بطور نائب صدر؟ گیارہ سال پہلے، یہاں تک کہ خواب میں بھی اس کے بارے میں سوچنا ناممکن تھا۔‘‘

انتخابی مہم کے دوران صدارتی عہدے کے آٹھوں امیدواروں نے اب تک خواتین کے اہم کاز پر زبانی طور پر حمایت کی ہے۔ یہاں تک عبدالرب رسول سیاف نے بھی جو ایک انتہاپسند روایتی پشتون امیدوار اور سردار ہیں، جنہوں نے بطور رکن پارلیمنٹ خواتین پر تشدد کو قانونی طور پر جرم قرار دینے کے ارادے کی سخت مخالفت کی تھی۔

اس موقع پر عبدالرب سیاف کا کہنا ہے کہ خواتین کے حقوق کے احترم کے نکتہ نظر سے ماضی میں کیے گئے اپنے عمل پر وہ نظرثانی کریں گے۔

تقریباً تین سو خواتین انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، جیسا کہ آزاد الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ تعداد افغان تاریخ کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہاں تک کہ قدامت پرست صوبے میں بھی انتخابی امیدواروں کا دسواں حصہ خواتین ہیں۔

حبیبہ ساروبی نے پیر کے روز کابل میں ایک جلسے سے خطاب کیا، جس میں ایک ہزار سے زیادہ خواتین کا ہجوم موجود تھا۔ انہوں نے کہا ’’آج آپ یہ کہہ سکتی ہیں کہ ایک خاتون کا ووٹ ایک خاتون کے لیے دیا جائے گا۔‘‘

بہت سی خواتین خبردار کرتی ہیں کہ ابھی اس مقام تک پہنچنے کے لیے کافی فاصلہ طے کرنا ہے، انسانی حقوق کی ایک وکیل زہرہ موساوی سوال کرتی ہیں ’’ان کی خواتین اوّل کہاں ہیں؟ ہم نے اب تک صرف ایک صدارتی امیدوار کی اہلیہ کو دیکھا ہے۔‘‘

وہ اشرف غنی کی بات کررہی تھیں، جن کی اہلیہ رولا ان کی انتخابی مہم میں شامل ہیں، اور انہوں نے اس میں تقریر بھی کی ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور ازبک سردار عبدالرشید دوستم بھی ہیں جو اپنی انتخابی مہم کے جلسے میں خواتین سے بات کرنے کے لیے اپنی اہلیہ کو اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔

خواتین کے حقوق کی وکالت کرنے والوں کے لیے مایوسی کی بات یہ ہے کہ حامد کرزئی اپنی اہلیہ زینت کو عوام کے سامنے نہیں لائے ہیں۔ اگرچہ وہ افغانستان کی معروف خواتین میں سے ایک ہیں، چند افغانیوں نے اپنے ملک کی خاتون اوّل کو دیکھا ہے، جو ان کے مطابق محافظوں کے بغیر خریداری کررہی تھیں۔

اس سب کے باوجود افغان خواتین شکوک کا شکار ہیں کہ مغربی حکام کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد کیا صورتحال ہوگی۔

زہرہ موساوی اور دوسری خواتین کے لیے خاص طور پر تشویشناک بات یہ ہے کہ بہت سے صدارتی امیدوار طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں، جن کی حکومت خواتین کو گھروں پر قید کرکے رکھنے اور بہت سے کاموں پر پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔

انہوں نے کہا ’’یہ سب لوگ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے بارے میں بات کررہے ہیں، جو ہمارے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ہم نے ان سالوں کے دوران خواتین کے لیے حاصل ہونے والی کامیابیوں کے تحفظ کی یقین دہانی کے بارے میں کچھ بھی نہیں سنا ہے۔‘‘

شہروں سے دور افغانستان کے دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے معمولی سی تبدیلی بھی نوٹ نہیں کی گئی ہے، جہاں خواتین کی بہت بڑی تعداد زندگی گزار رہی ہے۔ جہاں خواتین آج بھی اپنے شوہر، والداور بھائیوں کی جائیداد سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔

مریم وردک کا خیال ہے کہ حبیبہ ساروبی اور دیگر خواتین امیدواروں کی کامیابی سے یقینی طور پر خواتین کے کاز کو مدد ملے گی۔ اس انتخابات میں شریک خواتین امید کے چراغ ہیں، ان کی کامیابی سے خواتین کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔

بشکریہ: نیویارک ٹائمز