حکومتی ساکھ پر قومی اسمبلی میں انگلیاں اُٹھ سکتی ہیں
اسلام آباد: آج بروز پیر قومی اسمبلی کے اجلاس کے آغاز کے دوران حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں ہی کو اپنے اختیارات اور بالادستی کے حوالے سے پریشان کن سوالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ دراصل اس اجلاس کے ایک ہی دن پہلے ملک دوسرے سب سے اہم قومی دن کو مذہبی جماعتوں کی جانب سے ہائی جیک کرلیا گیا تھا۔
اس اجلاس کے دوران حکومت کوئی اہم بل قانون سازی کے لیے پیش کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، پھر بھی طالبان باغیوں کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے لیے اس کا عزم اور سعودی عرب کی جانب سے دیا جانے والا ڈیڑھ ارب ڈالرز کی رقم کا تحفہ اپنے بین الاقوامی اثرات کی وجہ سے بہت سے اراکین اسمبلی کو بحث پر متوجہ کر لے گا۔
حزبِ اختلاف وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان سے جاننا چاہیں گے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی شوریٰ کے اراکین کے ساتھ براہ راست مذاکرات آخر کیوں نہیں شروع ہوسکے ہیں، جبکہ انہوں نے سات مارچ کو قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران یہ کہا تھا کہ یہ اگلے ہفتے شروع ہوسکتے ہیں اور یہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔
طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ اور جمیعت علمائے اسلام کے مولانا سمیع الحق کے ہمراہ وزیرِ داخلہ نے ہفتے کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے براہِ راست مذاکرات کے لیے کوئی نئی حتمی تاریخ نہیں دی تھی۔ اس سے قبل حکومتی اور طالبانی، دونوں کمیٹیوں کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا تھا، جس کی صدارت چوہدری نثار نے کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس میں چند دن مزید لگ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ دونوں فریقین ایک نامعلوم مقام پر رضامند ہوچکے ہیں۔
حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) یہ بات کہہ چکی ہے کہ امن مذاکرات اور اس کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اسلام آباد کے مبینہ جھکاؤ کے حوالے سے ایک ان کیمرہ بریفنگ کے لیے وہ حکومت پر زور دے گی، جس پر حکومت کی جانب سے تردید کی جاچکی ہے کہ وہ ان شامی باغیوں کی مدد کرنے جارہی ہے جو صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ ناقدین ڈیڑھ ارب ڈالرز کی سعودی امداد کو شام کے سوال سے منسلک کرتے ہیں۔
امکان ہے کہ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو خارجہ پالیسی کے ساتھ سعودی تحفے پر سوالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دوسری جانب وزیرداخلہ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات اور اس ایوان میں اپنے ایک متنازعہ بیان پر انہیں حزبِ اختلاف کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں بیان دیا تھا کہ تین مارچ کو اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے ایک سینئر جج خود اپنے ہی گارڈ کی گولی کا نشانہ بن گئے تھے۔
بعد میں عدالت کے سامنے اس گارڈ نے اس دعوے کو مسترد کردیا تھا، اس کے علاوہ ان وکلاء نے بھی اس دعوے کو گمراہ کن قرار دیا تھا، جو خودکش حملے کے وقت اس مقام پر موجود تھے۔ یاد رہے کہ اس حملے میں بارہ افراد ہلاک اور بہت سے دیگر زخمی ہوئے تھے۔
حزب اختلاف کی جانب سے ان کی ساکھ پر جو دھبّہ لگادیا گیا ہے، اس کو وزیرِ داخلہ کو صاف کرنا مشکل ہوجائے گا، جیسا کہ قائدِ حزبِ اختلاف اور پیپلزپارٹی کے رہنما نے اس معاملے کو اس بیان کے ساتھ مزید تلخ بنادیا ہے کہ ’’اب ہم چوہدری نثار کی کسی بات پر اعتماد نہیں کرسکتے۔‘‘
سید خورشید شاہ نے کہا کہ طالبان کی فیصلہ ساز ’شوریٰ‘ کے ساتھ مذاکرات کرنے والی وزیراعظم کی نامزد کردہ چار رکنی کمیٹی کے لیے کسی سیاسی شخصیت کو شامل نہ کرکے ایک بڑی غلطی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت سیاستدانوں کے بجائے صرف بیوروکریسی پر بھروسہ کرتی ہے۔اگرچہ انہوں نے کہا کہ ’’ملک اور قوم کی خاطر ہم اس مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔‘‘
خود سید خورشید شاہ کی اپنی ساکھ اس ماہ کے شروع میں بُری طرح متاثر ہوئی تھی۔ دراصل انہوں نے حزبِ اختلاف کی قیادت کرتے ہوئے سات مارچ کو ایک حکومتی بل کی متفقہ منظوری لیے حمایت کی تھی۔ یہ بل سپریم کورٹ کے سابق جج اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کے چیئرمین رانا بھگوان داس کی چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تقرری کی راہ ہموار کرنے کے لیے پیش کیا گیا تھا۔لیکن جب اگلے ہی روز یہ بل ایوانِ بالا کی منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش کیا گیا تو سید خورشید شاہ کی اپنی ہی پارٹی کے کچھ رہنماؤں نے اس کو مسترد کردیا۔
اس بل کا مقصد فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ایک سابق ممبر کے لیے عوامی مفاد کے عہدے پر مزید ملازمت کی اجازت دینا تھا۔اس بل کو پیپلزپارٹی کے کچھ سینئر اراکین، ان کے اتحادی عوامی نیشنل پارٹی اور یہاں تک کہ حکومتی اتحادی جمیعت علمائے پاکستان فضل کی جانب سے سخت مخالفت کے بعد اس کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی جائزے کے لیے بھیج دیا گیا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے ایک دن پیشتر یوم پاکستان کی تقریبات کا محدود پیمانے پر انعقاد سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ طالبان کی عسکریت پسندی ملک پر غالب ہے۔
سیکیورٹی خدشات کی بناء پر کئی سالوں سے روایتی گرانڈ ملٹری پریڈ کے لیے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ایک میدان کو استعمال کیا جاتا ہےاور صوبائی دارالحکومتوں میں بھی یہ دن محدود پیمانے پر منایا جاتا ہے۔
اس دن 23 مارچ 1940ء کو اس وقت کی آل انڈیا مسلم لیگنے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس کی بنیاد پر 1947ء میں پاکستان کی تشکیل ہوسکی۔
لیکن کل اس حوالے سے ایک دلچسپ تبدیلی دیکھنے میں آئی اور وہ یہ کہ ایک مختصر فوجی پریڈ کا ایوان صدر کی چاردیواری میں اہتمام کیا گیا، جس میں صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف نے فوجی پریڈ کے ساتھ ساتھ فوجی طیاروں کے فلائی پاسٹ کا بھی معائنہ کیا۔
جبکہ دوسری جانب کئی مذہبی جماعتیں یا گروپس، جن میں سے کچھ تو تحریک پاکستان کے وقت اس کی مخالفت کرتی تھیں یا اس وقت وجود ہی نہیں رکھتی تھیں، اس دن ملک کے مختلف شہروں میں جلسۂ عام منعقد کیے۔ اسلام آباد میں ایک جلسہ جماعت الدعوۃ جانب سے منعقد ہوا، جو کالعدم لشکرِ طیبہ کی خالق ہے۔