اسلام آباد ہائی کورٹ میں خصوصی عدالت کا فیصلہ چیلنج
اسلام آباد: سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو چیلنج کردیا ہے، جس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ سنگین غداری کا مقدمہ فوجی عدالت میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے اکیس فروری کو جنرل مشرف کی ایک درخواست کو مسترد کردیا تھا، جس میں انہوں نے عدالت سے کہا تھا کہ تین نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ سے متعلق ان کے مقدمے کو فوجی عدالت کو منتقل کردیا جائے۔
وکیل صفائی ڈاکٹر خالد رانجھا اور فیصل حسین کے ذریعے منگل کو دائر کی جانے والی پٹیشن میں سابق فوجی حکمران نے دلیل دی ہے کہ وہ اکتوبر 1999ء میں کولمبو، سری لنگا کے سرکاری دورے پر گئے تھے، جہاں انہوں نے سری لنکن آرمی کی پچاسویں سالگرہ کی تقریب میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔
ریٹائرڈ فوجی سربراہ نے اپنی پٹیشن میں مزید کہا کہ بارہ اکتوبر 1999ء کو جب وہ اپنی سرکاری ذمہ داری کی ادائیگی کے بعد پاکستان واپس لوٹ رہے تھے، تب انہیں ان کے عہدے سے محروم کردیا گیا تھا، اور ان کی جگہ جنرل ضیاءالدین کو نیا فوجی سربراہ مقرر کردیا گیا تھا۔
پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور دیگر نے ان کے جہاز کو کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کی اجازت نہ دے کر انہیں ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ان کے جہاز کے پائلٹ مجبور ہوگئے تھے کہ جہاز کو انڈیا میں لینڈ کرائیں ورنہ ایندھن کی کمی کی وجہ سے جہاز گر کر تباہ ہوجائے گا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم کی جانب سے کی گئی اس کارروائی کے جواب میں مسلح افواج کا ایک بھرپور ردّعمل سامنے آیا اور بالآخر فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔فوج کے قبضہ کرلینے کے بعد ریٹائرڈ جنرل خواجہ ضیاءالدین کو ان کے عہدے سے معزول کردیا گیا اور جنرل مشرف کو چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر بحال کردیا گیا۔
جنرل مشرف کی درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ فوج کی جانب سے بارہ اکتوبر 1999ء کو اقتدار پر قبضے اور بعد میں اُٹھائے گئے دیگر اقدامات کی سپریم کورٹ کی جانب سے توثیق کی گئی تھی۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ بعض وجوہات کی بناء پر جنرل مشرف نے تین نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت نافذ کی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کے انعقاد اور نو منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی کے بعد جنرل مشرف نے 18 اگست 2008ء کو صدر پاکستان کے عہدے سے استعفےٰ دے دیا تھا۔
پٹیشن کے مطابق 2007ء کا فیصلہ اس وقت کی حکومت کی جانب سے لیا گیا تھا۔
دائر کی گئی درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ کئی سال گزرجانے کے بعد موجودہ حکومت نے اب جاکر یہ فیصلہ کیا کہ جنرل مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ خصوصی عدالت میں چلایا جائے۔
درخواست میں تین ریٹائرڈ فوجی افسروں جنرل خالد منیر خان، جنرل مظفر افضال اور جنرل خالد ظہیر کی مثال دی گئی ہے، جو 2004ء سے 2008ء کے درمیان ریٹائیر ہوئے تھے اور اب وہ قومی احتساب بیورو (نیب) تحت مقدمے کا سامنا کررہے تھے،ان کے مقدمات پاکستان آرمی ایکٹ کے سیکشن سات کے تحت فوجی عدالت میں منتقل کردیے گئے تھے۔
جنرل مشرف کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت فوجی عدالت میں ان کے مقدمے کو منتقل نہ کرکے آئین کے آرٹیکل پچیس اور آرٹیکل 10-اے میں دیے گئے منصفانہ مقدمے کی سماعت کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
پٹیشن میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ خصوصی عدالت کے حکم کو مسترد کرے اور وفاقی حکومت کو ہدایت کرے کہ اس مقدمے کو فوجی عدالت منتقل کیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی بینچ اس پٹیشن کی سماعت بیس مارچ کو کرے گی۔