پاکستان

تھر کا قحط اور وقتی ہمدردیوں کا شور

تھر کے وسائل کو ترقی دے کر مستقل بنیادوں پر مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے وقتی طور پر شوروغوغا کیا جاتا ہے۔

سول ہسپتال مٹھی کے احاطے کے اردگرد اور اندر زبردست شوروغوغا کا عالم تھا۔ جیسے ہی ایک شخص اپنے پانچ برس کے بیٹے کو لیے ہوئے ایمبولنس سے برآمد ہوا، کیمرہ مینوں اور رپورٹروں کا ایک گروپ اس شخص کے گرد نیم دائرے میں اکھٹا ہوگئے، ان کے کیمروں سے کلک کی آوزیں آنے لگیں، وہ اس کی اور اس کے نیم بے ہوش بچے کی تیزی سے بہت سی تصویریں لے رہے تھے۔

ایمرجنسی کے داخلی راستے کے نزدیک دائیں طرف صوبائی اسمبلی کے ایک رکن ٹی وی کے عملے کے ساتھ بات چیت میں مصرف تھے، جبکہ بہت سے ان کی جانب بڑھنے کے لیے بےقرار تھے۔ قحط سے متاثرہ ایک قریبی گوٹھ کے سفر کے لیے گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے سابق ایم پی اے کے پرسنل سیکریٹری میڈیا کے نمائندوں کی گنتی کررہے تھے۔

مختلف ٹی وی چینلز کی رنگ برنگی موبائل گاڑیوں سے ہسپتال کا داخلی راستہ بُری طرح جام تھا، ہسپتال کے بیرونی مریضوں کے شعبے میں جانے والے ہرایک مریضوں کے لیے رپورٹرز کو راستہ بنانا پڑرہا تھا۔

اس کے عین برعکس ہسپتال کا اندرونی ماحول نہایت پُرسکون تھا، اگرچہ ڈاکٹر پیدائشی بچوں سے لے کر تین برس کے بچوں کے معائنے میں مصروف تھے۔

پچھلے چند دنوں سے تھر میں خشک سالی کی رپورٹیں مقامی میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر کے قومی پریس کی شہہ سرخیوں کی زینت بن رہی تھیں۔انہی دنوں میں مٹھی پہنچی، جہاں سے اطلاعات ملی تھیں کہ لوگوں کی بڑی تعداد متاثرہ علاقے سے نقل مکانی کرکے دوسرے ضلعوں میں چلی گئی تھی۔

لیکن ہسپتال سے منسلک ایک سینئر ڈاکٹرنے ایک مختلف صورتحال پیش کی۔ اپنے آفس کے ساتھ کھڑے ہوئے انہوں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست کے ساتھ تین عوامل کی جانب اشارہ کیا۔ ان کے آفس کے ساتھ پیشاب اور پسینے کی ناگوار بو پھیلی ہوئی تھی۔

انہوں نے تبصرہ کیا کہ ’’سب سے پہلے تو یہ واضح رہے کہ یہ ایسی خطرناک صورتحال نہیں ہے، جیسا کہ اس کو بنادیا گیا ہے۔ نگرانی اور منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے پاکستان کے اس خطے میں خشک سالی ایک معمول کا عمل بن گیا ہے۔میڈیا کو محض ابھی اس کے بارے میں علم ہوا ہے۔ دوسری بات کہ نقل مکانی یہاں برسوں سے ایک طرزِ زندگی ہے، ان علاقوں میں کسان اپنی گندم اورگنے کی فصل کی فروخت کے لیے مختلف ضلعوں میں نقل مکانی کرتے ہیں اور سب سے زیادہ اہم بات یہ کہ رابطہ سڑکوں کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو ہسپتال نہیں لایا جاتا، اس کے علاوہ مریضوں کا ڈاکٹروں سے علاج اس لیے بھی نہیں کروایاجاتا کہ یہ لوگ صدیوں سے قائم توہمات پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘

اسی نکتہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے میرپورخاص ڈویژن میں محکمہ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام غوث نے کہا ’’یہاں پر لوگ عام طور پر اپنے بچوں کا علاج فقیروں سے کرواتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر غوث اس وقت دالان کے نیچے ایک دوسرے کمرے میں مریضوں کا معائنہ کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’لوگ اسی وقت ہسپتال کا رُخ کرتے ہیں، جب بیماری بہت بگڑ جاتی ہے۔ خشک سالی کو یہاں کی مقامی آبادی میں شکرا کہا جاتا ہے۔ مختلف ڈاکٹروں کے ہمراہ ہماری ٹیمیں مقامی آبادی کو آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مناسب علاج اور دیکھ بھال کے لیے حیدرآبادکے ہسپتال میں بھیجیں، لیکن وہ اس سے انکار کردیتے ہیں۔‘‘

تھر کے مرکز میں واقع مٹھی شہر کی آبادی لگ بھگ ساٹھ ہزار لوگوں پر مشتمل ہوگی۔ یہاں مسلم اور ہندو برادریوں میں منصفانہ توازن قائم ہے جو صدیوں سے ایک ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں۔

اویئر نامی ایک این جی او کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر علی اکبر رحیمو نے واضح کیا کہ مناسب مواصلاتی نیٹ ورک کے سلسلے میں سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت کے دوران مٹھی اور چھاچھرو میں بہت زیادہ ترقیاتی کام کیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا ’’بدقسمتی سے کئی برسوں کے دوران کسی نے بھی تعلیم اور صحت کے شعبوں کو ترقی دینے کے لیے کسی نے بھی مناسب دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ تھری لوگوں کی زندگی میں مال مویشی بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، ہر ایک ان کے ساتھ اس حوالے سے مربوط رہتا ہے۔ لیکن اس معاملے مجرمانہ غفلت برتی گئی۔‘‘

ڈاکٹر سونو خان گھارانی جو ماضی میں تھر ڈیپ دیہی ترقیاتی پروگرام سے منسلک رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ وقتی طور پر امداد اور بحالی کے لیے فکر کرنے سے کیا ہوگا، جبکہ تھر کے وسائل کی طویل مدتی پائیداری پر توجہ مرکوز نہیں ہے، جس میں سب سے زیادہ اہم مال مویشی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’کچھ لوگ حقائق اور اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔ بہت سے ڈاکٹر مجھ سے اتفاق کریں گے، کہ یہ اموات نہیں ہونی چاہیٔے تھیں۔ ان اموات کا سبب سائنسی ریسرچ سے مدد لے کر ان مسائل کو حل کرنے میں ہماری ریاست کی عدم دلچسپی ہے۔‘‘

ڈائریکٹر ہیلتھ کے آفس کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں پانچ سال سے کم عمر کے 18 بچوں کی اموات نمونیا اور تیز بخار کی وجہ سے ہوئیں۔ فروری میں 23 بچوں کی اموات ہوئیں۔

لیکن ڈاکٹر سونو خان گھارانی نے پچھلے سال کے اعدادوشمار کو عدم دلچسپی یا خطرے کی گھنٹی قراردیا، جس میں خشک سالی برقرار رہنے کے نتیجے میں 195 بچوں اور پانچ سو بھیڑوں کی اموات رپورٹ ہوئی تھیں۔

انہوں نے کہا ’’میں کسی بھی طرح ان اموات کو گھٹانے کی کوشش نہیں کررہا ہوں۔ لیکن مختصر مدت کے لیے یکجہتی کا اظہار مجھے خوفزدہ کردیتا ہے۔ مہینے کے وسط میں نقلِ مکانی کرنے والے مٹھی واپس لوٹ آئیں گے، جیسا کہ کسان مرچ اور کپاس لے کر گئے تھے اب اپنی گندم کی فصل کے لیے واپس آجائیں گے۔ یہ یہاں کا معمول ہے۔ اور ہم میں سے بہت سے لوگ ان کی اموات کو فراموش کردیں گے۔‘‘

ایک وقفے کے بعد انہوں نے کہا ’’ان باتوں کو یہ غریب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔‘‘