پاکستان

چین اور سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون میں توسیع

دفترِ خارجہ کی ترجمان نے ان قیاس آرائیوں کو رد کردیا کہ سعودی عرب پاکستان سے ہتھیار لے کر شامی باغیوں کو فراہم کرے گا۔

اسلام آباد: پاکستان نے جمعرات کو دفاعی تعاون پر چین اور سعودی عرب کے ساتھ جاری اس کی بات چیت پر غیرمعمولی طور پر روشنی ڈالی۔

پاکستانی حکومت سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کے ایک نئے دور کے منصوبے پر کام کررہی ہے، جس کے ذریعے وہ قابلِ اعتماد دفاعی تعاون کو مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ چین کے ساتھ دفاعی تعاون کو بھی توسیع دی جارہی ہے۔

دفترِ خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ہفت روزہ میڈیا بریفنگ میں کہا کہ سعودی شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کے گزشتہ ماہ پاکستان وزٹ کے دوران دفاعی پیدوار میں تعاون کے امکان پر بات چیت کی گئی تھی۔

تسنیم اسلم نے کہا کہ ’’یہ بات چیت جاری ہے اور اب تک اس معاملے کو حتمی صورت نہیں دی گئی ہے ۔‘‘

دونوں ممالک اعلٰی سطح کے لین دین پر تبادلۂ خیال شہزادہ سلمان کے وزٹ کے دوران بات چیت کا حصہ تھا۔

میڈیا پر کافی عرصے سے پاک سعودی دفاعی معاہدے کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری تھیں، تاہم دفترِ خارجہ کی ترجمان کے بیان سے پہلی مرتبہ سرکاری طور پر اس کی تصدیق کی گئی۔

ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا کہ ہتھیاروں کی مشترکہ پیداوار میں تعاون کی ایک تجویز زیرِ غور تھی، لیکن انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ فائٹر جیت جے ایف-17 کی مشترکہ پیداوار اور ایئرکرافت کی تربیت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان صرف ان طیاروں کی فروخت میں دلچسپی رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا ’’آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم جے ایف-17 تھنڈر اور مشاق تربیتی طیارے تیار کرتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ اگر وہ خرید سکیں تو ہمیں فروخت کرنے میں دلچسپی ہوگی۔‘‘

مسلسل دوسری بریفنگ کے دوران دفترخارجہ کی ترجمان نے زور دیا کہ سعودی عرب کو پاکستان کی دفاعی برآمدات حاصل کرنے کے لیے آخری صارف کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوگی۔

’’آخری صارف سرٹیفکیٹ‘‘ پر اصرار کرتے ہوئے انہوں نے اس تصور کو مسترد کردیا کہ سعودی عرب پاکستان سے حاصل کیے گئے دفاعی سازوسامان کو شامی باغیوں کو برآمد کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مزید یہ کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان پہلے ہی سے دفاعی تربیت کے تبادلے جاری ہیں۔

چین کے معاملے پر بات کرتے ہوئے تسنیم اسلم نے کہا کہ چین کے وزیرِ دفاع جنرل چانگ وان کوان نے پچھلے ہفتے پاکستان کا دورہ کیا تھا، پاکستان کے چین سےدفاعی سازوسامان کے حصول کو علاقائی تناظر میں دیکھا جانا چاہیٔے۔

انہوں نے پاکستان کے چین کے ساتھ تازہ ترین دفاعی حصول کی جانب اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ہتھیاروں کی دوڑ میں خود کو شامل نہیں کرنا چاہتے ہیں اور ہتھیاروں کی خریداری پر اپنے وسائل کا بہت کم حصہ خرچ کرتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ہم خطے میں جاری صورتحال سے مکمل طور پر غافل بھی نہیں رہ سکتے۔ ہم خطے میں ایک روایتی استحکام برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

دفترِ خارجہ کی ترجمان نے سینیٹ میں گزشتہ ہفتے جمع کرائی جانے والی تحریک استحقاق کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان جارحانہ ریمارکس سے کیا احساس کرانا چاہتے ہیں۔

پچھلے ہفتے کی میڈیا بریفنگ کے دوران ان کے تبصرے کو سینیٹ میں سخت اعتراض کیا گیا تھا۔

جب انہوں نے کہا تھا کہ ’’شام کی پالیسی پر تنقید سے حوصلہ افزائی ہوگی یا اس بحث میں شامل لوگوں کی ذہنی سطح پر سوالات اُٹھائے جائیں گے۔‘‘

ان سینیٹروں نے خیال کیا کہ ان کے تبصرے میں ان کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، اس لیے کہ انہوں نے بحث میں پہل کی تھی کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے شام کی پالیسی میں تبدیلی کردی ہے۔

سوالات اُٹھائے جانے کی وجہ سے اس تبصرے کو وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹ سے حذف کردیا گیا ہے۔

تسنیم اسلم نے کہا ’’پارلیمنٹیرین جو کچھ بھی کہتے ہیں، ہم نے کبھی بھی اس پر تبصرہ نہیں کیا۔ بطور عوامی نمائندے ہونے کے انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے پر بحث کریں یا حکومت، دفترِ خارجہ یا کسی بھی دوسرے ادارے سے کوئی بھی سوال پوچھیں۔‘‘