پاکستان

حکومت، طالبان مذاکرات پر پی پی پی کے رہنما تقسیم

ذرائع کے مطابق پی پی پی کے رہنماؤں نے قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ کی جانب سے حکومت کی حمایت پر جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا۔

اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنماؤں کے درمیان تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ حکومت کے مذاکرات پر ایک واضح تقسیم دیکھی جارہی ہے، جس کا اثر پارٹی کے نچلی سطح کے کارکنوں اور عہدیداروں پر منتقل ہورہا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کی یکسر مختلف رائے کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

پیپلزپارٹی کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی کے قانون سازوں اور رہنماؤں کی اکثریت حال ہی میں اسمبلی میں کی گئی خورشید شاہ کی دو تقریروں پر ناخوش تھے، جو انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات اور متنازعہ انسدادِ دہشت گردی آرڈیننس کے حوالے سے کی تھیں۔

ذرائع کے مطابق سینیٹ کے چیئرمین کے چیمبر میں ایک غیر رسمی اجتماع کے دوران پیپلزپارٹی کے اراکین پارلیمنٹ نے خورشید شاہ کی اس تقریر پر جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا، جو انہوں نے 29 جنوری قومی اسمبلی میں وزیراعظم کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کے لیے چار رکنی کمیٹی کی تشکیل کے اعلان کے فوراً بعد کی تھی۔

اراکین پارلیمنٹ نے کہا ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار کی اسی دن کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خورشید شاہ نے اپنی تقریر میں ان کے جذبات کی حقیقی نمائندگی نہیں کی تھی۔ ذرائع نے مزید کہا کہ خورشید شاہ نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ انہوں جو کچھ کہا وہ پارٹی کی پالیسی کے خطوط کے مطابق تھا۔

خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران کمیٹیوں کے ذریعے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے انعقاد کے لیے حکومت کی حالیہ کوششوں کو حمایت فراہم کی۔

اگرچہ خورشید شاہ نے مذاکرات کے لیے ایک معینہ وقت کا مطالبہ کیا تھا، لیکن انہوں نے حکومتی ٹیم کی تشکیل پر کوئی سوال نہیں اُٹھایا اور صرف کمیٹی کی تشکیل کے لیے وزیراعظم کو بہت زیادہ وقت صرف کرنے پر تنقید کی۔

خورشید شاہ نے اپنی تقریر میں کہا تھا ”اگر آپ سات مہینوں کے بعد اب بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ مذاکرات ہی بہتر راستہ ثابت ہوں گے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔“

دوسری جانب ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار جو عام طور پر حکومت کی حمایت کرتے رہے ہیں، اس اقدام کو شہیدوں کے لہو کو فروخت کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح دہشت گردوں کو خود کو منظم کرنے کا وقت دیا گیا ہے۔

پچھلے مہینے سیاسی صورتحال پر سینیٹ میں بحث کے دوران جب مسلم لیگ نون کے ایک قانون ساز نے موجودہ حوکمت کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری اور سید خورشید شاہ کی مختلف نکتہ نظر کی جانب اراکین کی توجہ مبذول کروائی تھی تو سینیٹ کے چیئرمین اور زرداری کے وفادار صابر علی بلوچ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ سید خورشید شاہ کے بیانات کو پارٹی کی پالیسی کے طور پر نہیں لیا جاسکتا۔