پاکستان

فیصل آباد: گیارہ پولیس اہلکار مجرموں کے فرار میں ذمہ دار

پولیس اہلکاروں نے قتل، ڈکیتی اور گینگ ریپ میں ملوث ’اودھ گینگ‘ کے گرفتار مجرموں کو فرار ہونے میں مدد دی۔

فیصل آباد: ایک ڈی ایس پی اور کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے ایک انسپکٹر سمیت گیارہ پولیس اہلکاروں نے درجنوں ڈکیتی کی وارداتوں، گینگ ریپ اور قتل میں ملؤث عادی مجرموں کے ایک گروہ کو پولیس کی حراست سے فرار ہونے میں مدد دی۔

اس گروہ کے فرار میں سی آئی اے کے پولیس اہلکار کا کردار اس وقت سامنے آیا جب سی آئی اے کے ایس پی فاروق ہندل ایک انکوائری کے دوران ایک مجرم سے تفتیش کررہے تھے، جو پولیس کی حراست سے فرار ہوا تھا، لیکن بعد میں اس کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیاتھا۔

’اودھ گینگ‘ کے نام سے معروف ان مجرموں کے پولیس کی حراست سے فرار کے بعد کی جانے والی یہ انکوائری سٹی پولیس آفیسر (سی پی او) ڈاکٹر حیدر اشرف کی ہدایات پر شروع کی گئی تھی۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ گینگ قتل، ڈکیتی اور ڈکیتی کے دوران ریپ کے مختلف کیسز میں پولیس کو مطلوب تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مجرمین جن میں نظام عرف وریام، اس کا بھائی عرفان اودھ آف سمانا، آصف عرف عاشق، ارشد اور ریاست عرف ڈاکٹر شامل ہیں، سب چک نمبر 6-جے بی کے رہائشی تھے۔ انہیں سدھوپورہ علاقے میں ایک گھر سے گرفتار کیا گیا، یہ علاقہ غلام محمد آباد پولیس کی حدود میں آتا ہے، جہاں سے وہ 23 جنوری کو فرار ہوئے تھے۔تاہم پولیس نے آصف کو دوبارہ گرفتار کرکے اس کے ساتھ تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا کہ ان مجرموں کو فرار ہونے میں کسی اندرونی ذریعے نے ان کی مدد کی تھی۔

انکوائری آفیسر نے اپنی رپورٹ (جو ڈان کو میسر آئی ہے) میں عاشق کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان مجرمین نے اے ایس آ ئی نیاز، کانسٹیبل ستار اور کچھ دوسرے آن ڈیوٹی پولیس اہلکاروں کے ساتھ ایک ڈیل طے کی تھی، کہ یہ پولیس اہلکار اس گینگ کے مجرموں کو فرار ہونے میں مدد دینے کے ایک لاکھ پچاس ہزار روپے لیں گے۔ عاشق نے بتایا کہ انہوں نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ مجرمین فرار ہوتے ہوئے ایک سرکاری مشین گن اور ایک موٹرسائیکل بھی اپنے ہمراہ لے جائیں گے، تاکہ واقعہ حقیقی نظر آئے۔

انکوائری آفیسر نے حوالہ دیا کہ گینگ کے مجرموں کے ساتھ پولیس اہلکاروں نے سمندری، کور اور بھالک کے مختلف نجی مقامات پر دومہینے تک تفتیش کی تھی، اور بالآخر انہوں سدھوپورہ میں ایک وکیل کے گھر سے گرفتار کرلیا گیا۔

انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ یہ گینگ دو مہینے سے جن پولیس آفیسر کی حراست میں تھا، ان میں سی آئی اے کے ڈی ایس پی انجم کمال، انسپکٹر ظفر اقبال، انچارج مکوانہ سی آئی اے سب انسپکٹر احمد منیل شاہ، انچارج مدینہ ٹاون سی آئی اے کے اے ایس آئی نیاز احمد، اے ایس آئی اعجاز واہلہ، کانسٹیبل شمشاد، طارق واہلہ، طاہر جاوید، غضنفر شاہ اور عبدالستار شامل ہیں۔چنانچہ یہ تمام اس فرار میں ذمہ دار ہیں۔

انکوائری آفیسر نے بتایا کہ ڈی ایس پی کمال مجرموں کے گینگ کی گرفتاری اور ہتھیاروں کی بازیابی سے اچھی طرح واقف تھا، لیکن اس نے یہ معلومات روک رکھی تھی۔

انہوں نے ان ملزم پولیس اہلکاروں کو ’پولیس یونیفارم میں سیاہ بھیڑیں‘ قرار دیا، جو ڈیپارٹمنٹ کے لیے بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔

انکوائری میں یہ بھی واضح ہوا کہ سی آئی اے کے ایس آئی احمد منیل نے زیرِ حراست مجرموں کی ان کے گھروالوں کے ساتھ ملاقات کا بھی انتظام کیا تھا اور عدالت میں رٹ پٹیشن جمع کرانے میں بھی ان کی مدد کی تھی۔

سی پی او کا کہنا ہے کہ پولیس آرڈر کے سیکشن 155-سی اور پی پی سی کے 223/224 کے تحت ایک مقدمہ (76/14) ایس آئی احمد، اے ایس آئی نیاز اور کانسٹیبل ستار، سخاوت اور دوسرے پولیس اہلکاروں کے خلاف غلام محمد آباد پولیس کے ساتھ درج کرلیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غفلت کے مرتکب تمام پولیس اہلکاروں کو ان کی ملازمت سے معطل کردیا گیا ہے۔

انکوائری آفیسر نے کہا کہ ملزم اے ایس آئی اور کانسٹیبلوں کو شوکاز نوٹس جاری کردیے گئے ہیں اور ڈی ایس پی اور انسپکٹر کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے چار مجرم اب بھی مفرور ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔