پاکستان

مشرف کے وارنٹ گرفتاری سپریم کورٹ میں چیلنج

سپریم کورٹ میں سابق صدر مشرف کی لیگل ٹیم کی جانب سے دو علیحدہ درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔

اسلام آباد: سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے نظرثانی کی درخواست مسترد کیے جانے کے پانچ دنوں بعد کل بروز منگل چار فروری کو سپریم کورٹ سے دوبارہ رجوع کرلیا، لیکن اس مرتبہ انہوں نے خصوصی عدالت کی جانب سے جاری کیے جانے والے قابل ضمانت گرفتاری کے وارنٹ پر سوال اُٹھایا ہے۔ یاد رہے کہ خصوصی عدالت میں ان کے خلاف غداری کے الزم میں مقدمے کی سماعت کی جارہی ہے۔

مشرف کی لیگل ٹیم کے ایک رکن ایڈوکیٹ چوہدری فیصل حسین نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ”آج جنرل مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کی جانب سے اکتیس جنوری کو جاری کیے جانے والے ان کے قابل ضمانت گرفتاری کے وارنٹ اور دس جنوری کے ایک حکم کو چیلنج کیا گیا ہے جس میں خصوصی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ غداری کے مقدمے میں کرمنل پروسیجر کوڈ کی شقیں بھی لاگو کی جائیں۔“

تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے جنرل مشرف کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے جبکہ کرمنل پروسیجر کوڈ کی کی شقیں لاگوکی تھیں۔

ایک علیحدہ درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ جب تک اعلٰی عدالت اس کے علاوہ جمع کرائی گئی دو درخواستوں پر فیصلہ نہیں دے دیتی، اس وقت تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے روک دیا جائے۔

دونوں درخواستوں میں بجائے اپیل کی اجازت حاصل کرنے کے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت بنیادی حقوق کے نفاذ پر سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کی جانب منتقل کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

شریف الدین پیرزادہ، انور منصور اور ڈاکٹر خالد رانجھا کی جانب سے دائر کی جانے والی ان درخواستوں میں سیکریٹری داخلہ کے ذریعے وفاقی حکومت اور خصوصی عدالت کو اس کے رجسٹرار کے ذریعے نامزد کیا گیا ہے۔

درخواست گزار نے دلیل دی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی غیرموجودگی میں خصوصی عدالت نے نہ تو دانستہ طور پر اور نہ ہی مشورے کے ساتھ لیکن مدعا علیہان کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں پر کوئی فیصلہ دیے بغیر جس میں آئین، دائرہ اختیار اور وفاقی حکومت کی جانب سے خصوصی عدالت کی تشکیل پر سوالات اُٹھائے تھے، رجسٹرار نے اکتیس جنوری کو وارنٹ جاری کرنے کا اعلان کردیا۔

درخواست میں دلیل دی گئی ہے کہ یہ اعلان ایک کھلی عدالت میں نہیں کیا تھا، نہ تو درخواست گزار، نہ ہی کوئی ایجنسی اس حکم کی تعمیل کی پابند تھی، اس لیے کہ یہ حکم دائرہ اختیار یا اتھارٹی کے بغیرتھا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ”اس طرح اکتیس جنوری کا حکم غیرقانونی ہے، قوتِ عمل نہیں رکھتا اور نہ ہی اس کو نافذکیے جانے کے قابل ہے۔“

درخواست میں اس بات کو دہرایاہے کہ خصوصی عدالت نے اس درخواست کو مسترد کردیا تھا، جس میں اس کی تشکیل اور سرکاری وکیل محمد اکرام شیخ کے علاوہ ججز کے مبینہ تعصب کو چیلنج کیا گیا تھا۔