گیس چوروں کے خلاف کارروائی میں وفاق سے دو صوبوں کا عدم تعاون
لاہور: گیس کی چوروں کے خلاف کارروائی کے عمل میں عدم تعاون پر وفاقی حکومت بلوچستان اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کے ساتھ خوش نہیں ہے، اور یہ سمجھتی ہے کہ بڑے پیمانے پر قدرتی وسائل کی چوری کو روکا جائے تو اسے گھریلو اور صنعتی صارفین کو فراہم کیا جاسکتا ہے۔
پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ خصوصاً پنجاب میں گیس کا لو پریشر موسم سرما کی شدت ختم ہونے کے بعد بہتر ہوجائے گا۔ لیکن اس طرح کی صورتحال اگلے سال دوبارہ نہیں پیدا ہوگی، اس لیے کہ اس سال کے اختتام سے قبل متوقع طور پر ایل این جی (مایع قدرتی گیس) کی درآمد شروع ہوجائے گی۔
اتوار کے روز ڈان سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے گیس چوروں کے خلاف کارروائی میں سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کے عدم تعاون پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا، جبکہ گیس چوری کی بڑی تعداد کا پتہ لگانے میں وفاقی کی مدد کرنے پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کی تعریف کی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ”جب سے ملک بھر میں گیس چوروں کو پکڑنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں، بدقسمتی سے وفاق کو سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی جانب سے محدود طرزوں میں مدد حاصل ہوئی ہے۔ تاہم پنجاب میں یہ کوششیں بے مثال رہی ہیں، جبکہ خیبرپختونخوا کی حکوت بھی گیس چوری کے معاملات کا پتہ لگانے میں ہماری مدد کررہی ہے۔“
پنجاب میں ان دنوں گھریلو صارفین کے لیے بڑے پیمانے پر جاری گیس کی لوڈ شیڈنگ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ پنجاب تک مخصوص ہے، اس لیے کہ سردیوں میں گیس کی طلب میں اضافہ ہوگیا ہے،اور آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت گیس کی فراہمی محدود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”مختصر مدت میں گیس کی فراہمی میں اضافہ ہی واحد حل ہے، جو گیس کی درآمد کی صورت میں ہی ممکن ہوسکے گا۔ ہم گیس کی درآمد کے مختلف منصوبوں پر کام کررہے ہیں اور امید ہے کہ اس سال کے آخر تک ایل این جی کی درآمد شروع ہوجائے گی۔“
ارجنٹ گیس کنکشن کے لیے گھریلو صارفین سے پچیس ہزار روپے چارج کرنے کے حوالے سے سوئی نادرن گیس پائپ لائن کی تجویز کے فوری نفاذ کے بارے میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آئل اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اس تجویز پر کام کررہی ہے۔
پندرہ جنوری کی عوامی سماعت میں اوگرا نے اس سلسلے میں اپنا جو نکتہ نظر پیش کیا تھا، اس کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”سوئی نادرن گیس پائپ لائن کو اس اسکیم کا نفاذ یکم فروری 2014ء سے کرنا چاہیٔے۔ جب سے ہم نے پہلے آئیے پہلے پائیے کی اسکیم کی بنیاد پر گیس کے کنکشن کی فراہمی شروع کی ہے، اس سے سفارش کے کلچر کا خاتمہ ہوا ہے۔ عوام کو حکومت کی اس حکمتِ عملی کی تعریف کرنی چاہیٔے۔“
مستقبل میں سی این جی کے شعبے کو یا تو ختم کیا جائے یا برقرار رکھا جائے، تاکہ صنعتی و گھریلو صارفین کو بلا تعطل گیس فراہم کی جاسکے، اس حوالے سے جب ان سے حکومتی ارادے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سی این جی کے شعبے کے مستقبل کا انحصار درامدی قیمت کی بنیاد پر گیس کی فراہمی پر ہے، کم قیمت پر گیس صرف گھریلو صارفین اور دیگر اہم استعمال جیسے کہ صنعتی شعبے کو گیس فراہم کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ”یہی وجہ ہے کہ اس شعبہ میں فی الحال ایل این جی بیسڈ فلنگ اسٹیشن کے انفرانسٹرکچر کی تیاری پر کام ہورہا ہے۔“
ٹیکسٹائل اور فرٹیلائزر سمیت دیگر صنعتی شعبوں کو بلا تعطل گیس کی فراہمی کے حوالے سے حکومتی ترجیحات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے سنجیدگی کے ساتھ کام کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت یہ یقین رکھتی ہے کہ ملک میں گیس کی قلت کی وجہ پچھلے پندرہ سالوں سے جاری کرپشن اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے، جبکہ اس حکومت نے گیس کی پیدوار کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”درآمدی پائپ لائن کے لیے وسط مدتی امداد کی کوششیں کی جارہی ہیں، ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ فی الحال بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہے، اور ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا پائپ لائن منصوبے سے 2017ء کے آخر یا 2018ء کی ابتداء میں گیس کی فراہمی شروع ہوجائے گی۔“
انہوں نے کہا موجودہ حالات میں ایل این جی کی درآمد کے ذریعے اس بحران میں کمی کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ایل این جی کی 2بی سی ایف ڈی کی درآمد کو ہدف بنا رکھا ہے، جو حالیہ گیس کی کل ملکی پیدوار کے پچاس فیصد کے برابر ہے۔
وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا کہ ”ہم پُرامید ہیں کہ موجودہ حکومت کی اس مدت اقتدار کے دوران پاکستان اضافی گیس حاصل کرنے کے قابل ہوجائے گا۔“